"KNC" (space) message & send to 7575

اہلِ فلسطین کے نادان دوست

قلم ہو یا زبان‘ یہ سب خدا کی نعمتیں ہیں۔ ہر نعمت کا حساب ہو گا۔
ایک مدت گزر گئی لکھتے لکھاتے۔ اردو ادب کا بڑا حصہ پڑھ ڈالا۔ مشرق و مغرب کے ادب کی بھی حسبِ توفیق خوشہ چینی کی۔ اتنی خبر تو ہے کہ اسالیبِ کلام کیا ہوتے ہیں۔ طنز کے پیرائے کو سمجھتے ہیں اور تحسین کے زاویے کو بھی۔ ہجو بھی معلوم ہے اور مدح بھی۔ لکھنے بیٹھتے ہیں تو ان تما م اسالیب سے آراستہ الفاظ صف بستہ سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات جملے نوکِ قلم سے لپٹ جاتے ہیں۔ ان لمحوں میں خدا ہی کی توفیق سے کوئی احساسِ قلم کو تھام لیتا ہے اور ایسے جملے کبھی قرطاس کی زمین پر قدم نہیں رکھ پاتے۔
یہ احساس کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے: تم کیوں لکھتے ہو؟ اس لیے کہ لوگ تمہیں صاحبِ قلم مانیں اور تحسین کے پھول نچھاور کریں؟ ناقدین کے منہ بند ہو جائیں اور تمہاری اَنا کو تسکین ملے؟ فیس بک پر بیٹھا مداحوں کا ایک ٹولہ واہ واہ کرتا رہے؟ اسی احساس کی کوکھ سے جواب بھی جنم لیتا ہے: اگر ایسا ہے تو یہ تمہاری ذہنی اور اخلاقی پستی کا اظہار ہے۔ تمہاری اَنا اتنی اہم کیسے ہو گئی کہ ملّی و انسانی فلاح پر غالب آ جائے؟ یہ تو خود پسندی اور نرگسیت کا ادنیٰ درجے کا ایک اظہار ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ان باتوں کی عمر ہی کیا ہے؟ اتنی‘ جتنی ایک کالم کی۔ آٹھ نہیں تو دس دن۔ کیا اتنی عارضی اور بے وقعت خوشی کے لیے ایک بڑے مقصد کو قربان کرنا کوئی عقل کی بات ہے؟ میں اسی احساس کے ساتھ قلم اٹھاتا ہوں اگرچہ یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ ہمیشہ اس کے تقاضے نبھا سکا ہوں۔
مجھے یہ بات بادلِ نخواستہ لکھنا پڑی ورنہ میرے لیے کالم میں اپنا ذکر یا شخصی جذبات یا واقعات کا بیان سخت ناپسندیدہ عمل ہے‘ جن میں پڑھنے والے کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان نہ ہو۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کالم کو ہمیشہ اجتماعی مسائل ہی کے لیے خاص رکھوں۔ آج یہ سب کچھ اس لیے لکھنا پڑا کہ مسلمانوں کودرپیش مسائل کے بارے میں میرے یا میرے ہم فکر حلقے کے خیالات تنقید کی زد میں ہیں اور اس تنقید میں مہربانوں نے سارا زورِ قلم صرف کر ڈالا ہے۔ القاب ہیں‘ طنز ہے‘ استہزاہے‘ وغیرہ۔ یہی نہیں‘ یہ تنقید غلط بیانیوں‘ غلط فہمیوں اور تضادات سے اس قدر مملو ہے کہ اس کی نشاندہی پر کئی صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں۔ چونکہ ان ناقدین میں کچھ وہ بھی ہیں جو میرے دل کے قریب ہیں‘ اس لیے براہِ راست نشاندہی کرتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔ بس اتنا عرض کرنا ہے کہ دبستانِ شبلی کے خوشہ چینوں کے لیے یہ دنیا اجنبی نہیں جن کے علمی آباؤ اجداد کا تعلق اردو کے ارکانِ خمسہ میں ہوتا ہے۔ بس ایک احساس ہے جو قلم سے لپٹا ہوا ہے؛ تاہم‘ ہم بھی انسان ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کبھی اس احساس کی گرفت سے نکل جاتے ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایک استاد میسر ہے جو تذکیر کراتا ہے۔ جس کا اپنا ظرف بہت بڑا ہے۔ وہ ہمیں مسلسل یاد دہانی کراتا ہے کہ قلم ہو یا زبان‘ یہ خدا کی نعمتیں ہیں اور ہر نعمت کا حساب ہونا ہے۔
یہ تنقید ایک مسلسل عمل ہے مگر اس وقت اس کا سبب فلسطین کی موجودہ صورتِ حال ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اہلِ فلسطین کو جتنا نقصان ان کے خود ساختہ نمائندوں اور نادان دوستوں نے پہنچایا ہے‘ اتنا تو اسرائیل اور امریکہ مل کر نہیں پہنچا سکے۔ فلسطین کی سرزمین کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا۔ ان کی نسلیں برباد ہو گئیں۔ تاریخ نے جب بھی ان کے لیے کوئی موقع پیدا کیا‘ یہ نادان دوست سامنے آکھڑے ہوئے کہ کہیں یہ آتش کدہ سرد نہ ہو جائے۔ یہ اس کوشش میں رہے کہ وہاں مقتل آباد رہے اور وہ اپنے آرام کدوں میں بیٹھ کر ان کے غم میں آنسو بہاتے اور اس آتش کدے کو تیل فراہم کرتے رہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں تو حد ہو گئی۔ اب جنگ بندی کو وہ کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ میں جب سوال اٹھاتا ہوں کہ بھائی اس بربادی پر جشن کیسا تو کہتے ہیں دیکھو! انہیں تو فلسطینیوں کی خوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
دنیا میں فلسطینیوں کا کوئی خیر خواہ ہے تو وہ ہم جیسے لوگ ہیں جو انہیں آباد اور شاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جیسی آرام کی زندگی ہم اسلام آباد میں گزار رہے ہیں‘ وہی ان کو غزہ میں نصیب ہو۔ ان کے بچے بھی اسی طرح اچھے مستقبل کا خواب دیکھیں جیسے ہمارے بچے دیکھتے ہیں۔ ان کو تعلیم ملے اور ان کے سامنے اپنے مستقبل کا ایک واضح نقشہ ہو۔ یہاں الٹی گنگا بہائی جا رہے کہ جو اہلِ فلسطین کے لیے امن تلاش کرے‘ وہ دشمن اور جو اُن کے لیے مقتل کو مسلسل آباد رکھنا چاہے وہ خیر خواہ! آج فلسطینیوں کو اپنے مسائل کا نیا حل چاہیے۔ اُس حل کی ناکامی پر تو تاریخ مہرِ تصدیق ثبت کر چکی‘ جس کی نمائندگی حماس کر رہی ہے۔ اس حل پر اصرار کر نے والے فلسطینیوں کے خیر خواہ ہر گز نہیں ہیں۔ عزیمت اور حماقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
فلسطین کے باب میں اپنا نقطہ نظر میں ایک بار پھر چند نکات کی صورت میں بیان کر رہا ہوں۔ یہ لازم نہیں کہ فہمِ دین کے باب میں میرے ہم خیال حلقے کو بھی اس سے پورا اتفاق ہو۔
1: اسرائیل کا قیام عالمی قوتوں کا ایک ناجائز اقدام تھا جو ایک عالم گیر اور مسلسل فساد کا اصل سبب ہے۔ فلسطین کے مسئلے کو بیان کرتے وقت اس کی یاد دہانی ہوتی رہے تاکہ ایسی غلطیوں کو پھر نہ دہرایا جائے۔
2: اسرائیل ان حدود میں سمٹ جائے جو 1948ء میں اس کے لیے طے کی گئی تھیں۔اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی جو مخالفت کی ہے اُس پر اس سے معذرت کے لیے کہا جائے۔ عالمی برادری اور مسلم دنیا اس میں اپنا کردار ادا کرے۔
3: غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کم از کم دس برس کے لیے ہو۔ عالمی قوتیں اس دوران میں امن کی ضمانت دیں جن میں سعودی عرب اور قطر سمیت مسلمان ممالک بھی شامل ہوں۔
4: غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مارشل پلان کی طرز پر ایک منصوبہ دیا جائے جس کے لیے سب سے زیادہ وسائل امریکہ دے جو اس بربادی کے ذمہ داروں میں سرِ فہرست ہے۔
5: حماس جیسی تنظیمیں انسانی بستیوں کو پناہ گاہ بنانے سے گریز کریں۔ اہلِ فلسطین ایک قیادت میں مجتمع ہو کر اپنے لیے مستقبل کا لا ئحہ عمل طے کریں اور سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنائیں۔
6: مزاحمت کے موجودہ تصور کا اخلاقی اور عقلی محاکمہ کیا جائے اور مزاحمت کا ایک متبادل تصور سامنے لایا جائے۔
نادان دوستی میں مسئلہ اخلاص کا نہیں‘ بصیرت کا ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت یہ ایک اخلاقی مسئلہ بن جاتا ہے جب ہم دوسروں کے لیے مثالی حل سوچتے ہیں اور اپنے لیے عملی۔ اگر ہم اپنے بچوں کیلئے ایک پُرامن ماحول چاہتے ہیں تو فلسطینیوں کیلئے کیوں نہیں؟ کیا ایک اچھی زندگی صرف ہمارا حق ہے‘ ان کا نہیں؟ یہ اخلاقی سوال ہے جس کا لوگوں کو سامنا کرنا چاہیے۔ یہاں بیٹھ کر اسرائیل کو گالیاں دینے سے فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ الخدمت جیسی تنظیمیں کم ازکم ان کے زخم پر مرحم تو رکھ رہی ہیں کہ وہ اسی مقصد کے لیے قائم ہوئی ہیں۔ دانشور اس کے سوا کیا کر رہے کہ فلسطینیوں کے لیے مقتل آباد رکھنے کے لیے دلائل فراہم کر رہے ہیں۔
آج جو جذباتی فضا بنا دی گئی ہے‘ اس میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں۔ مجھے لیکن وہی کہنا ہے جسے میں علی وجہ البصیرت درست سمجھتا ہوں۔ میں اسے بیان کرتا رہوں گا‘ اِلا یہ کہ کوئی اخلاقی یا عقلی دلیل سامنے آ کھڑی ہو۔ یہ کوئی ذاتی اَنا کامعرکہ نہیں۔ اور نہ ہی کسی کی اَنا یہ قیمت رکھتی ہے کہ اس کے لیے انسانی مقتل آباد رکھنے کے لیے دلائل تراشے جائیں۔ یہ نرگسیت ہی کی ایک شکل ہے جو بڑے پیمانے پر سامنے آئے تو عالمی جنگ برپا کرا دیتی ہے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں