"KMK" (space) message & send to 7575

شاہ جی کیوں ہنسے تھے؟

ملتان سے اپنی غیر حاضری کے سلسلے میں دوستوں اور قارئین کی ہلکی پھلکی گولہ باری کے باوجود یہ عاجز بہرحال تقابلی جائزے اور ایک آدھ ماہ کے بعد ملتان واپسی پر موازنے سے باز نہیں آ سکتا۔ اس تقابلی جائزے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ کم از کم احساسِ زیاں کے دائرے سے تو خارج نہ ہو جائیں۔ بقول حضرت اقبال:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اب یہ بھی کیا کہ دل اس احساسِ زیاں سے بھی عاری ہو جائے۔
ملتان پولیس کے ایک بڑے توپ افسر نے میرے ایک دوست کالم نگار سے ایک عدد فرمائشی تعریفی وتوصیفی کالم لکھوایا ہے۔ میں اس کالم کو اپنے دوست سے پوچھے اور تصدیق کیے بغیر اس لیے فرمائشی اور تعریفی کالم لکھ رہا ہوں کہ اس میں دی گئی تفصیلات سرا سر فراہم کردہ ہیں اور فرمائشی اس لیے کہ بھلا لاہور میں بیٹھے ہوئے کسی کالم نویس نے‘ جس کا ملتان سے براہِ راست کوئی واسطہ اور ملتان پولیس سے کوئی معاملہ نہیں تھا‘ یکایک یہ کالم کیوں لکھ دیا‘ سوائے اس کے کہ آفیسر موصوف کسی زمانہ میں کالم نگار دوست کے آبائی ضلع میں پولیس کے سربراہ رہے تھے۔ مذکورہ کالم میں ملتان میں ہونے والے جرائم کا ماضی اور حال کے حوالے سے موازنہ کرتے ہوئے ایسا سنہری نقشہ کھینچا گیا ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد ملتان دارالامن سے بھی اونچی شے معلوم ہوتا ہے۔ بقول شاہ جی ملتان میں جرائم کا سرکاری گراف اس لیے نیچے آ گیا ہے کہ ملتان پولیس بہت سے جرائم کا پرچہ ہی درج نہیں کرتی۔ جب ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوگی تو وہ جرم ریکارڈ کا حصہ نہیں بنے گا۔ جب ریکارڈ کا حصہ نہیں بنے گا تو گنتی میں بھی نہیں آئے گا اور ظاہر ہے جب گنتی میں نہیں آئے گا تو پولیس کے ریکارڈ کو خراب نہیں کرے گا اور جب ان درج نہ ہونے والی ایف آئی آرز کی بنیاد پر ریکارڈ مرتب ہوگا تو ظاہر ہے کہ حال کا گراف ماضی سے بہتر ہوگا۔ تاہم ریکارڈ اور گراف بہتر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملتان میں جرائم واقعی کم ہو گئے ہیں۔ جس طرح لوگ کسی زمانے میں دیوانِ حافظ سے فال نکالا کرتے تھے میں نے اپنے سامنے پڑے ہوئے اخبارات میں سے ایک اخبار کھینچا‘ یہ مورخہ نو جنوری کا ملتان میں شائع ہونے والے ایک قومی اخبار تھا جس کے صفحۂ آخر میں دائیں طرف اوپر دو کالمی خبر تھی کہ ''ملتان: وارداتوں کا جن بے قابو‘‘ ایک روز میں چوری ڈکیتی کی 25 وارداتیں‘ شہری نقدی‘ زیورات‘ قیمتی اشیا سے محروم۔ یہ صرف ایک دن کی ملتان کی صورتحال ہے‘ باقی دن بھی اسی طرح گزر رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ملتان پولیس عوام کیلئے باعثِ آزار جرائم کی بیخ کنی پر توجہ دینے کے بجائے شہر میں کسی دندناتے ہوئے لفٹروں کی سرپرستی فرمانے اور عوام کو جرمانے لگانے میں اس بری طرح مصروف ہے کہ اسے دیگر معمولی اور گھٹیا قسم کے جرائم کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ بندہ حیران ہوتا ہے کہ جب ملتان میں ایک عد قابل اور مستعد سٹی ٹریفک آفیسر موجود ہے اور ٹریفک کے معاملات کلی طور پر اس کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہیں تو انتظامی پولیس کا ٹریفک کے معاملات سے براہِ راست کیا لینا دینا ہو سکتا ہے؟
ایف آئی آر درج نہ ہونے سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ یہ ایسا واقعہ ہے کہ اگر کسی مہذب ملک یا معاشرے میں ہوتا تو وہاں سول سوسائٹی سڑکوں پر نکل آتی‘ پولیس سربراہ مستعفی نہ بھی ہوتا تو کم از کم معطل ضرور ہو جاتا اور صوبائی حکومت کے سربراہ کو تب تک نیند نہ آتی جب تک اس معاملے کی مکمل اور بے لاگ تفتیش نہ ہو جاتی اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا نہ مل جاتی مگر اس معاملے کو بھی اسی طرح خاموشی اور دھونس دھاندلی سے دبا لیا گیا ہے جو ہمارا قومی شعار ہے۔ ہر حکومت اپنے زیر انتظام اداروں میں ہونے والی ایسی زیادتی پر ایکشن لینے کے بجائے اسے اس طرح دباتی ہے کہ لگتا ہے حکومت ایسے کاموں کی روک تھام اور سدباب کیلئے نہیں بلکہ سرپرستی اور تحفظ کیلئے ہے۔ بعض اوقات تو لگتا ہے کہ حکومت جرائم کی بیخ کنی کے بجائے شریکِ جرم کے مرتبے پر فائز ہے۔ یہ میں نے صوبائی حکومت کا ذکر محض اس لیے کیا ہے کہ پنجاب سول سروس ایکٹ 2017ء کے مطابق کسی ڈویژن اور ضلع کے انتظامی افسر یعنی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنے زیر انتظام ہر محکمے کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور انتظامی ایکشن لینے کے مجاز ہیں‘ سوائے پولیس کے۔ جی ہاں! پولیس کو ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول سے قطعی طور پر نکال دیا گیا ہے۔ یہ ملک‘ جہاں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے ہی ناگفتہ بہ ہے‘ مزید خراب تر ہو گئی ہے۔
معاف کیجئے میں بہک کر دوسری طرف چلا گیا‘ اب وہ واقعہ بھی سن لیجئے۔ 19 ستمبر 2024ء کو پولیس کی وردی میں پانچ لوگ ایک راندۂ درگاہ سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بندے کے گھر پہنچے۔ گھر کے باہر موجود پرائیویٹ گارڈ کو حکم دیا کہ وہ اپنا اسلحہ ان کے سپرد کر دے۔ ظاہر ہے پولیس کسی پرائیویٹ گارڈ کو اسلحہ اس کے سپرد کرنے کا کہے تو اس حکم کو سرکار کا حکم سمجھ کر مان لیا جاتا ہے اور اصولاً اسے مانا بھی جانا چاہیے۔ سو گارڈ نے اپنا اسلحہ ان کے حوالے کر دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ نہ صرف کارِ سرکار میں مداخلت ہے بلکہ اسے حکم نہ ماننے کی صورت میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ گارڈ کو غیر مسلح کرنے کے بعد اس کی مشکیں کسی گئیں اور پھر پولیس کی وردی والے مسلح لوگ اس گھر میں داخل ہو گئے۔ یہ گھر کسی ویرانے میں نہیں‘ زکریا ٹاؤن جیسے بارونق علاقے میں ہے۔ پولیس نے گھر میں داخل ہو کر اپنے مطلوبہ شخص کا پوچھا۔ وہ بندہ تو اندر لاؤنج میں ہی موجود تھا‘ اس نے اپنے وارنٹ گرفتاری کا پوچھا مگر اسے وارنٹ دکھانے کے بجائے گھر کی تلاشی کا حکم دیا گیا۔ اس نے کہا کہ مطلوبہ شخص تو میں ہی ہوں‘ اب مزید تلاشی کی کیا ضرورت ہے؟ جواب دیا گیا کہ یہ ہمارا کام ہے اور اس میں آپ مداخلت نہ کریں۔ اس نے ان لوگوں سے شناخت‘ تھانے کا نام‘ بھیجنے والے افسر کا نام پوچھا مگر انہوں نے کسی سوال کا جواب نہ دیا۔ اب لامحالہ یہ سمجھا گیا کہ یہ ڈاکو ہیں جو کسی مطلوبہ شخص کیلئے نہیں شاید لوٹ مار کیلئے آئے ہیں۔ وہ گھر کے تمام لوگوں کو ایک کمرے میں لے آئے اور ایک بندوق بردار ان کے سر پر کھڑا رہا جبکہ بقیہ لوگوں نے گھر کی تلاشی لے کر قیمتی اشیا سمیٹنی شروع کر دیں۔ برانڈڈ گھڑیاں‘ زیورات‘ نقدی اور دیگر مہنگی اشیا اٹھا کر وہ لوگ رخصت ہو گئے اور جس شخص کی گرفتاری کے بہانے گھر میں داخل ہوئے تھے‘ اسے وہیں چھوڑ گئے۔
پہلے تو پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ دو دن بعد رپورٹ درج کی تو ملزمان کو پولیس کی وردی میں ملبوس نامعلوم افراد لکھوایا گیا۔ ایف آئی آر کے بارے میں کہا گیا کہ درج کر لی ہے مگر اس کی کاپی نہیں مل سکتی کیونکہ ایف آئی آر سیل ہے۔ اب اللہ جانے ایف آئی درج بھی کی گئی ہے یا نہیں۔ یہ سب کچھ بظاہر معمول کی بات ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ بندے اصلی پولیس سے تعلق رکھتے تھے‘ جو اس گھر سے تقریباً 25‘ 30 لاکھ روپے مالیت کی نقدی اور قیمتی اشیا لوٹ کر لے گئے۔ ملتان پولیس کے افسران ان وارداتیے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے یا مال مسروقہ برآمد کرنے کے بجائے مدعی پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مزید کارروائی سے باز آ جائے وگرنہ ان کے پاس اور بھی راستے ہیں۔ صرف اس معاملے پر اگر ایک عدد صاف ستھری انکوائری ہو جائے تو بہت سے پردہ نشین بے نقاب ہو سکتے ہیں مگر یہ سارا نظام باہمی بھائی چارے پر چل رہا ہے۔ لفٹروں کی جگا گیری پر افسرانِ بالا کی خاموشی اور یہ واقعہ سن کر میں نے شاہ جی سے کہا کہ آئی جی سے ملنا چاہیے۔ یہ سن کر انہوں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ مجھے سارا کالم لکھنے کے بعد اب سمجھ آئی ہے کہ شاہ جی کیوں ہنسے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں