ضلع کرم میں آپریشن پر قبائل کو اعتراض کیوں ہے‘ شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن کی نوبت کیوں آئی اور کیا واقعی مولانا فضل الرحمن کرم میں بدامنی کی آگ کو آپریشن کے بغیر‘ جرگے سے بجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ان سوالات کو ذیل کی سطور میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یکم جنوری کو‘ جب گرینڈ امن جرگہ کی تین ہفتے کی کوششوں سے فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تو توقع تھی کہ اب ضلع کرم میں زندگی معمول پر آ جائے گی۔ تب کرم میں کشیدگی کو تقریباً تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا اور راستے بند ہونے کی وجہ سے وہاں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہو گئی تھی اس لیے سب سے پہلے وہاں امدادی سامان پہنچانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کا قافلہ پاڑا چنار سے قریبی علاقے میں پہلے سے موجود تھا۔ یہ قافلہ جونہی پاڑا چنار کی طرف روانہ ہوا تو ایک گروپ نے اس قافلے پر فائرنگ کی جس میں ڈی سی کرم جاوید اللہ محسود بھی زخمی ہوئے۔ اس ناخوشگوار واقعے کے بعد کرم متاثرین کی امداد روک دی گئی۔ اس موقع پر حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت سے تعاون اور ڈی سی کرم پر فائرنگ کے واقعہ میں ملوث افراد کو حکومت کے حوالے نہ کرنے والوں کو امداد نہیں ملے گی جبکہ صوبائی حکومت کرم کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوئی۔ خیبرپختونخوا حکومت نے عندیہ دیا کہ یکم فروری تک کرم میں بنکرز کا خاتمہ کیا جائے گا اور ٹل سے ہنگو تک 48 چیک پوسٹوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا جبکہ 399 سابق سروس مین پر مشتمل تحفظ سکیورٹی فورس بھی قائم کی جائے گی اور خیبر پختونخوا حکومت وفاقی حکومت سے پاڑا چنار میں ایف آئی اے سائبر ونگ قائم کرنے کی درخواست بھی کرے گی۔ اپیکس کمیٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے کرم میں کسی بھی قسم کی شرپسندی روکنے کے لیے پاڑا چنار شاہراہ پر صبح چھ سے شام چھ بجے تک کرفیو نافذ کر دیا گیا جس کا مقصد قافلوں کی نقل و حرکت کے لیے راستوں کو محفوظ بنانا تھا جبکہ ضلع کرم میں سخت سکیورٹی اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے دفعہ 144 اور کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ان اقدامات کا بنیادی مقصد امن و امان کی بحالی کے علاوہ فوری طور پر متاثرین تک غذائی سامان پہنچانے کی تدبیر کرنا تھا‘ بالآخر آٹھ جنوری کو اشیائے خورونوش‘ ادویات اور دیگر ضروری سامان پر مشتمل 40 ٹرکوں کا پہلا قافلہ پاڑا چنار پہنچ گیا مگر ایک ہفتہ بعد 16 جنوری کو پھر سے کرم میں امدادی سامان لے جانے والے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق اس قافلے پر ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک فائرنگ جاری رہی جس میں مسلح افراد نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا حتیٰ کہ راکٹوں کا استعمال بھی ہوا۔ فائرنگ کے بعد مسلح افراد نے ٹرکوں سے سامان لوٹ کر آگ لگانے کی کوشش کی تاہم پولیس کی بروقت کارروائی سے حملہ آور پسپا ہوئے اور زیادہ تر سامان محفوظ رہا۔ اس حملے کے نتیجے میں ایک سپاہی سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوئے‘ چار ڈرائیوروں کی تشدد زدہ لاشیں بھی بگن کے علاقے سے ملیں۔ امدادی سامان پہنچانے والے ڈرائیوروں کو اغوا کر کے قتل کرنے کے پیچھے شرپسندوں کے مذموم عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کرم میں دو دھڑوں کی لڑائی کی آڑ میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال تشویشناک اور ناقابلِ برداشت تھی‘ سو علاقے میں ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے لیے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ شرپسند عناصر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی صفوں میں گھس گئے ہیں اور حالات خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کرم میں آپریشن سرچ اینڈ ٹارگٹڈ ہے جس کا مقصد امدادی قافلوں پر حملوں میں ملوث شرپسندوں اور دہشت گردوں کو تلاش کرنا ہے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق کئی علاقوں میں سرچ آپریشن شروع ہو چکا ہے۔ فورسز نے پہاڑوں پر دہشت گردوں کے مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ لوئر کرم کی چار ویلج کونسلوں میں آپریشن کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے لیے فورسز کی بھاری نفری لوئر کرم میں موجود ہے۔
دوسری طرف لوئر کرم کے مکین آپریشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ قبائل حکومت پر امن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔انہیں شر پسندوں کے خلاف آپریشن پر اس لیے تحفظات ہیں کیونکہ اس سے قبائل نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ پشتون اور قبائلی روایات میں نقل مکانی کو ناپسند کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی خیبرپختونخوا میں آپریشن کی بات ہوتی ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب عزم استحکام کا اعلان ہوا تو اسے بھی ماضی کے آپریشنز سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی گئی حتیٰ کہ عسکری قیادت اور حکومت کو وضاحت کرنی پڑی کہ عزم استحکام انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں تک محدود ہو گا کسی علاقے کے لوگوں کو نقل مکانی نہیں کرنی پڑے گی۔ کرم میں تین ماہ قبل جب حالات کشیدہ ہونا شروع ہوئے تو پندرہ ہزار کے قریب لوگوں کو قریبی علاقے ٹل کے کیمپوں میں رکھا گیا مگر کچھ ہی دنوں میں کیمپوں کے اندر لوگوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی کرکے کیمپوں میں آباد ہوئے تھے ان کے رشتہ داروں نے انہیں اپنے گھروں میں جگہ دے دی اور کیمپ میں صرف پانچ چھ سو کے قریب لوگ رہ گئے۔
کرم میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کی بات سامنے آئی تو وہاں کے قبائل نے بھی اس کی مخالفت کی کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں وہ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن چونکہ قبائل کے مزاج سے بخوبی آگاہ ہیں اس لیے وہ بھی آپریشن کے بجائے جرگے کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مردان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے حکومت کی کمزور رِٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کرم میں آپریشن کے ذریعے معاملات حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنا عاقبت نااندیشی ہو گی۔ سیاستدانوں کو اعتماد میں لے کر جرگے کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کرم کے معاملے پر مقتدرہ ہم سے کوئی مشورہ لینا چاہے تو انکار نہیں کریں گے۔ مولانا اس سے قبل بھی شکوہ کر چکے ہیں کہ کچھ لوگوں کی ایما پر انہیں کرم کے معاملے سے دور رکھا گیا۔ ان کا اشارہ ممکنہ طور پر خیبرپختونخوا حکومت کی طرف ہو سکتا ہے کیونکہ مولانا کرم معاملے کو اپنی بصیرت سے حل کر لیتے تو حکومت کی سبکی ہوتی اور مولانا کو سیاسی فائدہ ہوتا لیکن اب معاملات تباہی کی طرف جا رہے ہیں اس لیے اگر کئی ماہ سے لگی بدامنی کی یہ آگ افہام و تفہیم سے بجھ جاتی ہے تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے ہٹ کر مولانا کو ایک موقع ضرور دینا چاہیے اور ان کی مصالحت کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ قبائل میں لگی بدامنی کی آگ بجھ سکے۔