قادسیہ سے مدائن تک

یہ معرکہ رات گئے تک جاری رہا۔ ایرانی پہلوان رستم نے دونوں فوجوں میں حائل نہر میں چھلانگ لگائی‘ مگر ایک بہادر مجاہد ہلال بن علقمہ نے اس کی ٹانگ پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لیا۔ ایک ہی وار میں اس کا سر کاٹ کر اس کے تخت کی طرف بڑھے اور تخت پر چڑھ کر زور سے اعلان کیا: میں نے رستم کو قتل کردیا ہے۔ یہ پڑا ہے اس کا بے جان دھڑ۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے۔ جنگ قادسیہ میں مسلمان شہدا کی مجموعی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی‘ جبکہ ایرانی تیس سے پینتیس ہزار کی تعداد میں تہِ تیغ ہوئے۔ جس رات کو رستم قتل ہوا اور قادسیہ میں مسلمانوں کو فتح عظیم ملی‘ اسے تاریخ میں لیلۃ الہریر کہا جاتا ہے۔ حضرت سعدؓ نے فتح قادسیہ کے بعد اپنی فوجوں کو کچھ دنوں کے لیے مکمل آرام کا حکم دیا۔ آپؓ کے پیش نظر تھا کہ اب ایران کے پایہ تخت مدائن پر قبضہ کرکے ایرانی سلطنت کا قصہ تمام کرنا ہے۔ قادسیہ کے معرکے میں مجاہدین نے بہت عظیم کارنامے سرانجام دیے اور ہر قسم کی مشکلات کو بڑی استقامت کے ساتھ برداشت کیا۔ آٹھ ہزار مجاہدین کی شہادت کے ساتھ کم وبیش اتنی ہی تعداد میں مسلمان زخمی ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ کی خواہش اور ہدایت بھی یہی تھی کہ فوج کے تازہ دم ہونے کے بعد ہی آخری ہلّہ بولا جائے۔ ایک دو ماہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدؓ کی بیماری ختم کرکے انہیں کامل شفا عطا فرما دی۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اب وہ خود فوجوں کی کمان کے لیے تیار ہوگئے۔ قادسیہ اور مدائن کے درمیان چند قدیم شہر تھے جن میں سب سے اہم بابل تھا۔ یہی نمرود کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ مجاہدین بابل میں پہنچے تو وہاں کی فوجی چھاؤنی میں ایران کے تین نامور جنگی سردار ہرمزان‘ فیروزان اور مہران اپنی فوجوں کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی‘ مگر قادسیہ میں رستم کا لشکرجرار جن جانبازوں کا مقابلہ نہ کرسکا ان کے مدمقابل ان کی کیا حیثیت تھی۔ یہ بری طرح شکست کھا کر بابل سے بھاگے اور اپنا سارا سازوسامان وہیں چھوڑ گئے۔ یہاں حضرت سعدؓ نے اپنا کیمپ لگایا اور مختلف سالاروں کی قیادت میں چاروں طرف دستے بھیج دیے۔ کہیں بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ بابل اور بہرہ شیر کے درمیان ایک چھوٹا مگر تاریخی شہر کوثی آتا تھا۔ حضرت سعدؓ کی طرف سے ہراول دستے کے کمانڈر بنوتمیم کے سپوت اور صحابیٔ رسول حضرت زہرہ بن حویہؓ مقرر کیے جاتے تھے۔ اب کوثیٰ شہر کی طرف بطور سالار انہی کو بھیجا گیا۔ انہوں نے وہاں کے حاکم شہریار کو قتل کرکے کوثیٰ کو فتح کرلیا اور حضرت سعدؓ کو اطلاع دی تو آپؓ بابل سے کوثی تشریف لے گئے۔ اس شہر میں نمرود کے دور کا ایک قید خانہ تھا‘ جسے اب تک محفوظ رکھا گیا تھا۔ اس کے بارے میں روایات بیان کی جاتی تھیں کہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قید کیا گیا تھا۔ یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے‘ کیونکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات میں بیان کیا گیا ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ان سے سوال وجواب کیے گئے تھے۔ اسی طرح بت شکنی کے موقع پر بھی ان سے تفتیش ہوئی تھی۔ آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کرنے سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قید میں ڈالے جانے کا واضح امکان ہے۔ حضرت سعدؓ جب وہاں تشریف لے گئے اور انہیں وہ کال کوٹھڑی دکھائی گئی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مقید کیا گیا تھا تو آپؓ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے۔ آپؓ نے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود پڑھا اور قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ''یہ زمانے کے نشیب وفراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ (آلِ عمران: 140)
کوثیٰ سے آگے مدائن کے مغربی جانب ایک مضبوط قلعہ بہرہ شیر تھا۔ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اس شہر کا نام ایک خاص شیر پہ رکھا گیا تھا۔ ایرانی حکمران ہمیشہ اس قلعے میں بہت سے پالتو شیر رکھتے تھے۔ ان شیروں کا کوئی نہ کوئی سردار بھی ہوتا تھا‘ جس طرح قادسیہ کی جنگ میں ہاتھیوں کے سالار دو ہاتھی تھے۔ جب حضرت سعدؓ اپنی فوج کو لے کر یہاں پہنچے تو اہلِ فارس نے ایک خطرناک شیر کو مسلمانوں پر حملے کے لیے چھوڑ دیا۔ شیر کو دیکھ کر کسی مسلمان پر کوئی خوف طاری نہیں ہوا۔ حضرت سعدؓ کے نامور بھتیجے ہاشم بن عتبہؓ نے شیر سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ کر اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے شیر کی گردن کاٹ دی۔ ظاہر ہے کہ شیرانِ خدا کا مقابلہ شیرانِ بیشہ کیسے کرسکتے ہیں۔ جب فارسیوں نے اپنے سدھائے ہوئے شیر کا یہ انجام دیکھا تو ان کی ہوا اُکھڑ گئی۔ اس موقع پر حضرت سعدؓ بہت خوش ہوئے اور آگے بڑھ کر اپنے بھتیجے کی پیشانی چوم لی۔
بہرہ شیر کا قلعہ دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر واقع تھا اور مدائن شہر اور کسریٰ کے محلات دریا کے مشرقی جانب تھے۔ شہنشاہِ ایران یزدگرد نے جب بہرہ شیر پر مسلمانوں کے قبضے کی خبر سنی اور شیر کے ٹکڑے ہونے کا واقعہ بھی اس کے علم میں آیا تو فوراً ہنگامی طور پر جو کچھ جمع کرسکتا تھا‘ وہ لیا اور اپنے اہل وعیال کو مال ودولت سمیت تیز رفتار سواریوں سے حلوان بھیج دیا۔ ان کے پیچھے پیچھے خود بھی گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ نکلا۔ مدائن میں اب فوج تو موجود تھی‘ مگر اس کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ قرآن پاک کی آیت: ''عن قریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے‘‘ (القمر: 45) کی تفسیر باربار چشمِ فلک نے دیکھی۔ آج بھی یہی منظر تھا۔ حضرت سعدؓ منتظر تھے کہ امیرالمومنین کی طرف سے اجازت ملے تو مدائن پر حملہ کیا جائے۔ دربارِ خلافت سے جب اجازت نامہ آیا تو موسم برسات کی وجہ سے دجلہ میں اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ ایرانیوں نے بہرہ شیر سے بھاگتے ہوئے دریا کا پل توڑ دیا تھا۔ حضرت سعدؓ اپنے گھوڑے پر سوار جب دریا کے کنارے آئے تو اس منظر کو دیکھ کر ذرا نہیں گھبرائے۔ رہبان اللیل (راتوں کے عابد) اور فرسان النہار (دن کو گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار) آپؓ کی کمان میں دریا کے کنارے گھوڑوں پر سوار تھے۔ اللہ کا یہ محبوب بندہ جس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں‘ اپنے لشکر سے مخاطب ہوا اور فرمایا: اللہ کا نام لو اور حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل کا ورد کرو۔ پھر بلند آواز سے یہی آیت پڑھتے ہوئے سب سے پہلے آپؓ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈالا۔ حضرت سعدؓ کے بعد تمام لشکر نے اللہ کا نام لے کر اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ جیسے پانی مسخر ہو گیا ہو۔ صحابہ کرامؓ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے حَسْبُنَا اللّٰہُ کا ورد کرتے اور باہمی گفت وشنید کے ساتھ دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ کوئی ایک لشکری بھی دریا میں نہیں ڈوبا۔
دوسرے کنارے کوئی بڑا لشکر نہیں تھا۔ منتشر فوج کے کچھ دستے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ یہی وہ موقع ہے جس پر ایرانیوں نے اپنی قومی زبان فارسی میں کہرام مچاتے ہوئے کہا: ''دیواں آمدند‘ دیواں آمدند‘‘ یعنی یہ انسان کہاں ہیں‘ یہ تو دیو ہیں جو بپھرے ہوئے دریا میں تیرتے ہوئے آ رہے ہیں۔ اب یہ ضرب المثل بن چکی ہے ''دیواں آمدند‘ دیواں آمدند‘‘ جو خطرناک حالات پہ استعمال ہوتی ہے۔ سب فارسی جان بچا کر بھاگے۔ ان کے حکمران پہلے ہی حلوان کی طرف کوچ کر چکے تھے۔ مدائن میں کوئی خاص جنگ نہیں ہوئی۔ ساری شان وشوکت کافور ہو چکی تھی۔ محلات اور گنبد ومینار سُونے پڑے تھے‘ نام نہاد سپرمیسی زمین میں دفن ہو گئی تھی۔ شہر کے بازاروں میں سے گزرتے ہوئے حضرت سعدؓ کسریٰ کے شاہی محل میں پہنچے۔ کئی ایکڑ میں پھیلا ہوا یہ محل یوں ویران تھا کہ وہاں کسی پرندے کا بھی وجود نہیں تھا۔ اگرچہ ایرانی حکمران بہت کچھ اپنے ساتھ لے گئے تھے‘ مگر جو نہ لے جا سکے وہ بھی اتنا زیادہ تھا کہ اہلِ ایمان حیرت زدہ ہو گئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں