اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاک چین دوستی پر وار

اتوار کو رات گئے کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک ٹریفک سگنل پر ایک چینی قافلے کو خودکش حملے کا نشانہ بنانا پاکستان اور چین کے برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے اور پاک چین دوستی کو نشانہ بنانے کی ایک اور مذموم کوشش تھی۔ اس حملے میں دو چینی باشندوں سمیت تین افراد مارے گئے اور 17 زخمی ہوئے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی وجہ سے ملک میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے ۔ اس اجلاس میں شرکت کیلئے چینی وزیراعظم گیارہ سال بعد پاکستان آ رہے ہیں۔کراچی کے اس وقوعے کے حوالے سے چین نے پاکستان  سے ہنگامی بنیادوں پرمکمل تحقیقات اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ قبل ازیں کراچی میں نومبر 2018ء میں چینی قونصلیٹ اور اپریل 2022ء میں جامعہ کراچی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر چینی باشندوں پر دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جبکہ رواں برس مارچ میں داسو ڈیم جاتے ہوئے بشام کے علاقے میں چینی انجینئرز کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کیلئے چینی باشندوں کی بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران چینی کارکنوں کو تواتر سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہر حملے کے بعد چین کی جانب سے پاکستان پر چینی باشندوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا اور ہر بار حکومت کی جانب سے چینی باشندوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر اس کے باوجود حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امسال جون میں ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ اجلاس میں چینی وزیر نے پاکستان میں سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا‘ جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی میں وزیراعظم شہباز شریف نے سکیورٹی کی ذمہ داری محض فوج پر ڈالنے کے بجائے صوبوں سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔ یقینا سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے بہت سے حملوں کو ناکام بنانے میں کامیاب بھی رہے ہیں مگر ان کامیابیوں کے باوجود درپیش خطرات کی شدت سے انکار ممکن نہیں اور نہ ہی اس جانب سے غافل ہوا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ سیاسی اختلافات کا ماحول شدت پسندی کے فروغ میں سازگار واقع ہوتا ہے۔ سیاسی انتشار اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کا ربط یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی اختلافِ رائے قومی سلامتی کے اہم معاملات سے توجہ بھٹکا دیتا ہے۔ حالیہ دھماکا بھی ایسے وقت میں ہوا جب حکومت اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے میں مصروف تھی اور سندھ پولیس کے سینکڑوں اہلکار وفاقی دارالحکومت میں ڈیوٹی کر رہے تھے۔ اگرچہ صدرِ مملکت اور وزیراعظم سمیت اعلیٰ حکام نے اس افسوسناک واقعے کی مذمت کی ہے مگر یہ کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ نہ صرف اس واقعہ میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لایا جائے بلکہ آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے فول پروف انتظامات کیے جائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں