اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ

مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے کثیر جماعتی کانفرنس سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک موزوں عمل تھا جس سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہوگا کہ پاکستانی فلسطینی عوام کے دکھوں میں برابر کے شریک ہیں۔ مسئلہ فلسطین ان تنازعات میں سے ایک ہے جن پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام اور مقبوضہ علاقوں کی واگزاری پاکستان کا مستقل قومی مؤقف ہے۔ مسئلہ فلسطین کیلئے پاکستان کی حمایت اٹل اور کسی شبہے سے بالاتر ہے‘ اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ناجائز قابض ہے؛ چنانچہ مذہبی اور انسانی ہمدردی کے علاوہ عالمی امن اور انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر بھی پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مسئلہ فلسطین پر اپنا تاریخی مؤقف برقرار رکھتے ہوئے دنیا کو یاد دلاتا رہے کہ مقبوضہ فلسطین میں جاری بدامنی کا خاتمہ انصاف کے اصولوں کی پاسداری سے ممکن ہے اور انصاف یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر آزاد شہری کی حیثیت سے رہنے کا حق ملے۔ پاکستانی حکمران اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر یہ مؤقف بیان کرتے چلے آئے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں یہ آوازیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں‘ تاہم یہ امر بھی ظاہر وباہر ہے کہ اسباب کی اس دنیا صرف زورِ بیان کافی نہیں ہوتا۔ آج جن ملکوں کے سلوک اور طرزِ عمل کے ہم شاکی ہیں اگر ان کا اور اپنا موازنہ کیا جائے تو جو بنیادی فرق ہے وہ بیان بازی یا بیانیہ سازی میں نہیں‘ علم وہنر میں ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سائنسی اور علمی شعبے میں مسلم دنیا کی کارکردگی متاثر کن نہیں۔ چند ایک مثالیں اگر استثنائی طور پر مل جائیں تو الگ بات ہے ورنہ علمی ترقی اور سائنس وٹیکنالوجی میں ہماری دنیا کی جو حالت ہے وہ مایوس کن ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا علاج‘ دوا‘ دفاع‘ تعمیر‘ ترقی اور دولت کی انتظام کاری سمیت ہر شعبے میں مغرب کے محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے مسلم دنیا کو دولت کے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے‘ مگر ان وسائل کو علمی ترقی کی مہمیز بنانے میں جو ناکامی ہے وہ ظاہر وباہر ہے۔ 57 مسلم ممالک کی آبادی دنیا کی کُل آبادی کا تقریباً 25 فیصد بنتی ہے‘ مگر ان ممالک کی جانب سے علم‘ تحقیق اور ترقی پر اخراجات افسوسناک حد تک کم ہیں۔ مسلم ممالک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر جی این پی کا اوسطاً 0.48 فیصد خرچ کر رہے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے ارکان اس مد میں جی این پی کا 2.30 فیصد خرچ کر تے ہیں۔ یہی موازنہ اگر مشرق وسطیٰ کے خطے میں کیا جائے تو مزید حیرت ہوتی ہے۔ 2020-21ء کے اعداد وشمار کے مطابق اسرائیل نے ان برسوں میں R&D پر جی ڈی پی کا 4.9 فیصد خرچ کیا جبکہ متحدہ عرب امارات نے 1.2 فیصد‘ سعودی عرب اور ایران نے 0.83 فیصد‘ قطر 0.55 فیصد‘ بحرین 0.1 فیصد اور کویت 0.06 فیصد۔ آج اگر ہماری برادری کی زیادہ تر قومیں غربت‘ بدامنی اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل سے دوچار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ علمی اور سائنسی ترقی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح اول نہیں۔ ملک عزیز پاکستان جو بلاشبہ مسلم دنیا کی ایک قابل ذکر ریاست ہے‘ علمی ترقی پر اخراجات میں اپنے بھائی بندوں سے چنداں مختلف نہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ پانچ سے 16 سال کی عمر کے دو کروڑ 30 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ اس طرح سکول کی تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ وقت ہے کہ مسلم حکمران حالات کو اس نظر سے بھی دیکھیں۔ سب وسائل ہوتے ہوئے مسلم ممالک کا تعلیم اور ترقی سے محروم ہو کر دوسروں کا دست نگر رہنا قدرت کا فیصلہ نہیں‘ ہمارا اپنا انتخاب ہے‘ جس کے نتائج کئی صورتوں میں ہمارے لیے چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں