احتجاج کسی بھی جماعت کا آئینی و جمہوری حق ہے جس کے ذریعے وہ اپنی آواز کو مؤثر طریقے سے حکام تک پہنچا کر سماجی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے لیکن یہ حق کچھ حدود کا متقاضی ہے۔ احتجاج کا مقصد صرف اپنی بات منوانا نہیں بلکہ احتجاج کے دوران ہر اس کام سے اجتناب کرنا چاہیے جو شہریوں کی ایذا رسانی کا باعث بنتا ہو۔ احتجاج انسانی فطرت کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ احتجاج کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسانی تاریخ۔ ہر دور میں احتجاج ہوتا رہا ہے اور نظامِ زندگی بھی رواں رہتا تھا۔ عموماً احتجاج سے ایک روز قبل شہریوں کے لیے متبادل ٹریفک روٹ کا اعلان کر دیا جاتا تھا‘ شہریوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ انہوں نے احتجاج کے دوران کن راستوں کو اختیار کرنا ہے۔ احتجاج کے دوران اگرچہ کئی شہریوں کا سفر طویل ہو جاتا مگر انہیں تسلی ہوتی کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ یوں احتجاج بھی جاری رہتا اور نظامِ زندگی بھی رواں رہتا۔ پھر احتجاج کے نام پر ایسی شاہراہوں کا انتخاب کیا جانے لگا جس سے شہریوں کو اذیت کا سامنا ہو اور متبادل راستوں کو بھی بند کیا جانے لگا۔ شہری گھر سے نکلتے مگر ان کا منزل تک پہنچنا دشوار ہو جاتا۔ جب ہزاروں شہری سڑکوں پر ٹریفک میں پھنس جاتے تو احتجاجی خوش ہوتے جیسے انہوں نے اپنا مقصد پا لیا ہو اور انہیں اپنی کم تعداد کو زیادہ ظاہر کرنے کا موقع بھی مل جاتا۔
دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہوتا ہے کیونکہ پروپیگنڈا کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا جاتا ہے‘ سدباب کے طور پر اب حکومت انٹرنیٹ بند کردیتی ہے‘اس لیے شہری اپنے کاموں کو کچھ دیر کے لیے مؤخر کر دیتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ کب انٹرنیٹ بحال ہو اور وہ اپنے امور کو انجام دسکیں کیونکہ انٹرنیٹ آج کے دور کا ایک ایسا لازمی جزو بن چکا ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیم‘ صحت‘ کاروبار اور سماجی رابطوں کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی معلومات کا تبادلہ‘ لیبارٹری رپورٹس کی منتقلی‘ ادویات‘ طبی آلات کی فراہمی اور آن لائن مشاورت‘ یہ سب انٹرنیٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کاروباری ادارے بھی انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے گاہکوں سے جڑے رہتے ہیں جب حکومت طویل دورانیے کے لیے انٹرنیٹ کو بند کرتی ہے تو یہ نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ پورے معاشرے کو جام کر دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں شہریوں کو دہری اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف احتجاجیوں کا خوف‘ دوسری طرف حفاظتی بندوبست کے طور پر راستوں اور انٹرنیٹ کی بندش۔ ریاست شہریوں کے جان و مال کی محافظ ہوتی ہے لیکن حفاظتی تدابیر کے نام پر شہریوں کو گھروں میں محصور کر دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دنیا میں متعدد معاشروں کی مثالیں موجود ہیں کہ احتجاج بھی ہوتا ہے اور نظام زندگی بھی متاثر نہیں ہوتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مہذب معاشروں میں ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے‘ جہاں شہریوں کے حقوق غصب ہوتے ہوں‘ وہاں ریاست حرکت میں آتی ہے‘ مگر یہاں ریاستی ادارے خود ہی راستے بند کر کے شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کر تے ہیں۔ راستوں اور ذرائع ابلاغ کی بندش میں اب توازن قائم کرنا ہو گا تاکہ کسی احتجاج سے نظامِ زندگی متاثر نہ ہو۔
احتجاج ہیجان سے عبارت ہے۔ اگر پُرتشدد ہو تو اس کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے احتجاج مزاحمت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ مزاحمت کی بھی کسی حد تک گنجائش ہوتی ہے‘ لیکن یہاں معاملہ مزاحمت سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ اسے ضد اور انا کا نام دینا مناسب ہو گا۔ پی ٹی آئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم پاکستان کے دورہ پر تھے‘ ڈی چوک پر احتجاج کیلئے مصر رہی۔اس سے پہلے 2014ء میں چینی صدر کا طے شدہ دورہ پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے منسوخ ہو گیا ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 15اور 16اکتوبر کو پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے ‘ پی ٹی آئی ایک بار پھر سراپا احتجاج ہے؟ ظاہر ہے کہ حکومت اس احتجاج کا راستہ روکے گی جس کی ایک جھلک ہمیں پچھلے تین روز پہلے دیکھنے کو ملی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے ڈی چوک پہنچنے کا اعلان کیا تھا‘ سو وہ اپنے کارکنان کے ساتھ شہرِ اقتدار میں آئے‘مگر ڈی چوک تک رسائی کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی تو اچانک خیبرپختونخوا ہائوس میں ان کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ جنہوں نے ڈی چوک پہنچنا تھا وہ خیبرپختونخوا ہائوس کیسے پہنچ گئے‘ اور ہر بار ایسے ہی کیوں ہوتا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ علی امین گنڈاپور وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ خان صاحب کو خوش کرنے کے لیے چڑھائی کرتے ہیں مگر کارکنوں کی آنکھ سے بچ کر کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا کے جس قافلے کی قیادت کر رہے تھے وہ قیادت سے محروم ہو گیا جبکہ راولپنڈی اور گرد و نواح کے کارکنان پہلے ہی قیادت کے بغیر پولیس سے نبرد آزما تھے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ اس بار طے کیا گیا تھا کہ ایم این ایز احتجاج میں شامل نہیں ہوں گے۔ چلیں مان لیا ایسا ہی تھا لیکن کیا کارکنان کو یوں چھوڑ نا دانشمندی کہلائے گا؟ بالخصوص ایسے موقع پر جب پی ٹی آئی پر ہنگامہ آرائی اور جلسوں میں توڑ پھوڑ کے الزامات لگ رہے ہوں۔ سو جب کارکنان اور پولیس آمنے سامنے آئے تو تصادم کے خدشات بڑھ گئے اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئی ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ ایک پولیس اہلکار اس احتجاج کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایسے نازک مرحلے پر قیادت کو کارکنان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے مگر کے پی ہائوس سے علی امین گنڈا پور پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔ پی ٹی آئی قیادت ان کے وفاقی حکومت کی تحویل میں ہونے کا الزام لگاتی رہی اور وزیر داخلہ علی امین گنڈاپور کی کسی بھی سکیورٹی ادارے کی تحویل میں ہونے کی تردید کر رہے تھے۔ خیبر پختونخوا کابینہ اپنے وزیر اعلیٰ کی گمشدگی پر طیش میں آ گئی اور ہنگامی طور پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا۔ اتوار کے روز منعقدہ اجلاس میں وزیراعلیٰ کی گمشدگی کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ علی امین گنڈا پور کی گمشدگی کے بعد صوبائی اسمبلی میں وفاق کے رویے پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ علی امین گنڈا پور اچانک خیبر پختونخوا اسمبلی پہنچ گئے اور پھر اسمبلی سے خطاب بھی کیا۔ اس سے کچھ دیر قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد قیصر نے 24گھنٹے کے اندر ان کی ''رہائی‘‘ کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدم رہائی کی صورت میں ملک بھر میں احتجاج ہو گا۔
علی امین گنڈا پور کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کی گمشدگی سے متعلق پھیلائی گئی افواہیں دم توڑ گئیںالبتہ انہوں نے اپنے خطاب میں وفاق سے خوب گلے شکوے کیے۔ احتجاج کے لیے مویشی منڈی کی جگہ مختص کیے جانے پر بھی شکایت کی۔ دوسری جانب وفاق اس بار خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی رعایت برتنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام آباد پرچڑھائی کے لیے استعمال ہونے والی خیبرپختونخوا ریسکیو ڈیپارٹمنٹ کی 17 گاڑیاں اور 41 اہلکار اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔ وفاق نے بظاہر تیسری بار علی امین گنڈاپور کی منصوبہ بندی کو ناکام بناتے ہوئے اور انہیں پسپائی پر مجبور کیا ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں پنپنے والے غم و غصہ کو طاقت کے زور پر مزید کتنا عرصہ روکا جا سکے گا؟