ویسے تو ساری دنیا ہی مالکِ کائنات کے متنوع مظاہرِ قدرت سے بھری پڑی ہے۔ اربوں انسانوں میں ایک کی انگلیوں کے نشانات دوسرے سے نہیں ملتے‘ ایسے ہی بیشمار پہاڑ ہیں لیکن کیا مجال ہے کہ ایک پہاڑ ہی دوسرے سے مشابہ ہو۔ یہی حال ندی نالوں‘ میدانوں اور ریگزاروں کا ہے۔ تھل کا ریگستان چولستان سے مختلف ہے اور تھر کا صحرا سکردو کی بغل میں واقع سرفرنگا ڈیزرٹ سے مختلف ہے۔ لیکن آسٹریلیا تو باقی دنیا سے بالکل ہی مختلف ہے۔ زمین پہاڑ‘ جھیلیں‘ صحرا‘ ویرانے‘ میدان‘ پھل پھول اور چرند پرند‘ بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ یہ باقی دنیا سے ایک مختلف دنیا ہے۔
پہلے بھی کئی بار آسٹریلیا آنا ہوا لیکن یوں کہ زیادہ وقت شہروں میں گزر گیا۔ شہروں سے یاد آیا کہ شاید یہ واحد شے ہے انیس بیس کے فرق سے یورپ اور مغرب کے دوسرے شہروں سے ملتی جلتی ہے۔ طرزِ تعمیر کوئی ایسی نہیں کہ آپ اسے دنیا سے علیحدہ اور منفرد قرار دیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اولین آنے والے نو آباد گوروں کی غالب تعداد برطانیہ سے آئی تھی اور روایتی طور پر نہ صرف وہ اپنے آبائی وطن کی طرز پر تعمیرات کرنے کا فن جانتے تھے بلکہ وہ اس قسم کے گھروں میں رہنے کے عادی بھی تھے۔ لہٰذا انہوں نے تب ادھر آکر ویسی ہی عمارتیں بنانا شروع کیں جس قسم کے گھر اور عمارتیں وہ اپنے آبائی وطن میں چھوڑ کر آئے تھے اور بعد ازاں بھی اسی طرزِ تعمیر کی نقل کی جو برطانیہ میں رواج پایا گیا۔
اپنے طرزِ تعمیر سے محبت اور اس میں رہتے ہوئے سکون محسوس کرنے سے یاد آیا کہ برسوں گزرے‘ میرا ایک دوست مجھے برمنگھم سے پینتیس چالیس کلو میٹر دور ووسٹرشائر کے قریب ایک پرانے محل میں‘ جو تب ہوٹل میں تبدیل ہو چکا تھا‘ لے کر گیا۔ میں اس سابقہ محل اور حالیہ ہوٹل کا طرزِ تعمیر اور بناوٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ ایک مکمل طور پر کسی فرانسیسی ولا یا محل کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا نام شاتوامپنی (Chateau Impney)تھا۔ شاتو فرانسیسی میں محل کو کہتے ہیں‘ جیسے شہرہ آفاق ورسائی پیلس کو فرانسیسی میں (Château de la Verie)کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایک سو چھ بیڈ رومز‘ کئی عدد ہالز اور نوکروں کی رہائش گاہوں اور اصطبل پر مشتمل یہ ہوٹل کسی زمانے میں برمنگھم کے بہت بڑے صنعتکار اور رئیس جان کاربٹ نے 1873ء میں اپنی بیگم ہناالیزا اومیارا (Hannah Eliz o'meara)کی فرمائش پر بنایا تھا۔ اس کی بیگم کا تعلق فرانس کے ایک بہت معزز اور امیر خاندان سے تھا۔ جان کاربٹ اور اس کی ملاقات ہوئی جو پسند میں بدل گئی اور دونوں کی شادی ہو گئی۔ جب وہ بیاہ کر برطانیہ آئی تو اسے وہاں کا طرزِ تعمیر پسند نہ آیا۔ جان کاربٹ نے اس کی خوشی کی خاطر ایک فرانسیسی ماہر تعمیرات آگسٹے ٹرونکوئس سے نہ صرف اس کا نقشہ بنوایا بلکہ اس کی تعمیر کیلئے انجینئر بھی فرانس سے منگوائے۔ 1873ء میں اس محل کی تعمیر پر اڑھائی لاکھ پائونڈ خرچہ آیا جو آج کے حساب سے تقریباً سوا دو کروڑ پائونڈ کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ جان کاربٹ نے پیرس کے طرزِ تعمیر کی محبت میں گرفتار اپنی فرانسیسی اہلیہ کی خوشی کی خاطر تب خطیر رقم خرچ کر دی۔ اس محل نما ہوٹل کی بالکنی پر کافی پیتے ہوئے میں نے اپنے دوست سے پوچھا یہ محل ہوٹل کیسے بن گیا؟ وہ کہنے لگا: محبت کی اس شادی کا انجام کچھ اچھا نہ نکلا۔جان کاربٹ اور ہنا میں علیحدگی ہو گئی۔ وہ جان کاربٹ کی ایک دوسری جائیداد میں چلی گئی۔ محل اُجڑ گیا اور بعد ازاں کسی اور نے خرید لیا۔ کچھ عرصہ پہلے اسے ہوٹل اور تقریباتی مرکز بنا دیا گیا۔ برطانیہ کے وسط میں موجود اس خوبصورت عمارت اور اس کے گرد پھیلتے ہوئے وسیع و عریض سرسبز زارکے حسن نے مجھے بھی اپنا اسیر کر لیا اور میں اگلے چند سال میں دو تین بار اس جگہ کافی سے لطف اندوز ہوا۔ کورونا میں ہوٹل پہلے عارضی طور پر اور پھر مستقل بند کردیا گیا۔ اس کا مستقبل تو معلوم نہیں مگر ماضی یہ بتاتا ہے کہ وطن سے دور بھی اپنے آبائی وطن کا طرزِ تعمیر آپ کو تا عمر اپنااسیر رکھتا ہے۔
آسٹریلیا کے شہر بھی یورپی طرزِ تعمیر کے حامل ہیں۔ ہاں البتہ یہ فرق ہو سکتا ہے کہ کسی شہر میں اونچی عمارتیں کم ہیں اور کسی میں زیادہ۔ لیکن بنیادی طرزِ تعمیر مماثل ہے۔ رقبہ زیادہ میسر ہے اس لیے شہر نسبتاً کھلے ہیں۔ لیکن برطانیہ‘ یورپ اور دوسرے مغربی ممالک سے مماثلث یہیں تک ہے‘ وگرنہ آسٹریلیا اپنی سرزمین‘ جغرافیہ‘ چرند پرند اور نباتات کے اعتبار سے ایک مختلف دنیا ہے۔ یہاں کا ایکو سسٹم اور حیاتِ جنگلی کو بھی انگریز نو آباد کاروں نے برباد کیا۔ تاہم اب یہ عالم ہے کہ اپنی برباد کردہ ساری چیزوں کو خود ہی اب ٹھیک کرنے میں مصروف ہیں۔ حیاتِ جنگلی کو پہلے خوب جی بھر کر تباہ کیا اور اب اسے دوبارہ ایسے ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ معدومی کے قریب بہت سی چیزیں اور جانور واپس قدرتی ماحول میں دکھائی دیتے ہیں۔
جانوروں کی بات چلی تو آسٹریلیا ساری دنیا سے منفرد اور عجیب و غریب جانوروں کی آماجگاہ ہے۔ دودھ پلانے والے جانور یعنی ممالیہ کلاس کی مزید تقسیم کی جائے تو اس میں ایک نوع Marsupialsیعنی تھیلی دار جانوروں کی غالب تعداد صرف آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے۔ چند تھیلی دار جنوبی امریکہ میں بھی پائے جاتے ہیں تاہم وہ آسٹریلیا کے تھیلی دار جانوروں سے کافی مختلف ہیں۔ آسٹریلیا میں ان تھیلی دار جانوروں کی اتنی اقسام ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ ہمیں تو ان میں سے محض چند جانوروں کے نام آتے ہیں۔ ان تھیلی دار جانوروں میں مشہور کینگرو‘ کوالا‘ تسمانیں ڈیول‘ ایوزم اور وومبیٹ ہیں‘ تاہم ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں جانور ہیں جو اس نوع میں شامل ہیں۔
جانوروں کو ایسا تحفظ حاصل ہے کہ ان کو نقصان پہچانا یا مارنا ناقابلِ ضمانت قسم کا جرم ہے اور اس پر ایسے بھاری جرمانے اور سزائیں ہیں کہ بندہ ان کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔بعض جانور اس سختی بھرے ماحول میں مزید حفاظتی درجے کے حامل ہیں۔ ان میں سرفہرست کوالا ہے۔ چھوٹا سا گول مٹول بھورے اور سلیٹی رنگ کا ریچھ سے تھوڑا سا مشابہہ جانور دنیا کے سست ترین جانوروں میں شامل ہے۔ اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک سفیدے کے درخت کی کسی شاخ سے لپٹ کر ساکت و جامد انداز میں سونے والا یہ جانور آسٹریلیا میں خصوصی درجے کا حامل ہے۔ اس جانور کو کوئی بھی شخص پرائیویٹ طور پر یعنی گھر میں پالتو جانور کے طور پر نہیں پال سکتا۔ اگر سڑک پر زخمی ملے تو بھی اسے کوئی اٹھا کر ساتھ نہیں لے جا سکتا بلکہ کوالا کی حفاظت پر مامور محکمے کو فون کرکے اس کی اطلاع دے گا۔ اس جانور کو کسی صورت بھی آسٹریلیا سے باہر نہیں لے جایا جا سکتا۔ کسی نے کہا کہ کوالا کو آسٹریلیا والوں نے ایسا سنبھال کر رکھا ہے جیسے چین والوں نے اپنا جانور پانڈا سنبھال کر رکھا ہوا ہے مگر میرے خیال میں کوالا چین کے پانڈا سے بھی زیادہ تحفظ کا حامل ہے۔ دنیا کے کئی چڑیا گھروں میں پانڈا موجود ہے اور بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ دنیا بھر میں پانڈا جہاں کہیں اور جس چڑیا گھر میں بھی ہے وہ چین کی ملکیت ہے اور چڑیا گھر اس کو چین کے ساتھ معاہدۂ کرایہ داری کے تحت اپنے پاس رکھتے ہیں۔ معاہدے کے خاتمے کے بعد یا وہ معاہدے کی تجدید کرکے اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے یا اسے واپس چین کو دیدے گا۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے چڑیا گھر پانڈا کرائے پر حاصل کرتے ہیں اس کی ملکیت کے حامل نہیں ہیں تاہم کوالا ایسا جانور ہے جسے آسٹریلیا کرائے پر بھی نہیں دیتا۔ ادھر ہم نے اپنے صحرائوں کے ٹھیکے عرب شہزادوں کو دے رکھے ہیں جہاں وہ اپنے من پسند پرندوں کا قتل عام کرتے ہیں‘ تاہم یہ علاقے عام پاکستانی کیلئے شجر ممنوعہ سے بڑھ کر ہیں اور کسی کو ادھر آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تحفظ حیاتِ جنگلی محض ایک مذاق ہے۔