اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سوشل میڈیائی ہیجان

 حکومت پنجاب کی یہ وضاحت کہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر جو افواہیں پھیلائی گئیں‘ ان الزامات کے کوئی شواہد نہیں‘ طلبااور والدین کے لیے باعثِ تسلی و اطمینان ثابت ہوئی ہے۔صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری اور اے ایس پی ڈیفنس شہربانو نقوی کے بیانات سے صورتحال بڑی حد تک واضح ہو چکی ہے۔ اے ایس پی شہر بانو نقوی کے بقول مذکورہ کالج کے تمام سی سی ٹی وی کیمرے چیک کیے‘ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں‘ زیادتی کی جھوٹی اطلاع سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بھی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں تصدیق کی کہ ایک منظم منصوبے کے تحت لاہور کو فساد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس معاملے کی انکوائری کیلئے کمیٹی بھی بنا دی ہے جو 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرے گی۔ سوشل میڈیا پر اڑائی جانے والی یہ جھوٹی خبر دو دھاری تلوار تھی۔ جس سے بیک وقت معیاری تعلیمی اداروں پر طلبہ اور والدین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی بھیانک سازش اور شہر میں بد امنی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ خوش آئند بات ہے کہ حکومت پنجاب اور پولیس کی کارروائی سے صورتحال واضح ہوچکی ہے اور لوگوں کو سوشل میڈیا کی اس کارستانی کا اندازہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال سماجی حوالے سے کس قدر خوفناک ہو سکتا ہے‘ بہتان طرازی کی یہ مہم اس کی ایک مثال ہے۔ یہ حکام کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے سوئِ استعمال کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ‘ پاکستانی معاشرے نے اس سے پہلے بھی ایسے کئی دکھ اٹھائے ہیں جن سے اس احساس کو تقویت ملی کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو قواعدو ضوابط سے ماورا چھوڑنا بندر کے ہاتھ ماچس دینے سے زیادہ خطرناک ہے۔مگر حکومت نے کبھی اس جانب توجہ دی‘ کبھی نظر انداز کر دیا۔ سخت قوانین بھی بنائے گئے مگر قوانین اپنے آپ میں کیا ہیں‘ یہ ان پر عمل درآمد کا عزم ہے جو قوانین کی طاقت کو مؤثر بناتا ہے۔بد قسمتی سے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام کیلئے اس عزم کی سخت ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کے سماجی امن کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے اشخاص اور اداروں کی عزت و حرمت کو بچانا کارِ دشوار ہو جائے گا۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جھوٹی مہم سے نوجوانوں کی ذہن سازی کی جاتی اور ان میں اپنے ہی ملک اور معاشرے کے خلاف زہر بھرا جاتا ہے۔ یہ سب کہاں اور کیسے ہوتا ہے‘ یہ ایک کھلا راز ہے۔سوشل میڈیائی بہتان طرازی کے مذکورہ واقعے میں ایف آئی اے نے استعمال ہونے والوں اور استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے‘ امید کرنی چاہیے کہ حکومت اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر ہینڈل کرے گی تا کہ آنے والے وقت کے لیے یہ ایک عبرتناک مثال بن جائے۔ دنیا کا ہر خطہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے اثرات سے متاثر ہوا ہے مگر جن ممالک نے اس سلسلے میں بغیر کسی لیت و لعل کے اقدامات کئے اور قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے میں ان کے ادارے آخری حد تک گئے وہ سوشل میڈیا کے مفید اور ذمہ دارانہ استعمال کو بہت جلد سیکھ گئے۔ پاکستانی سماج کو بھی سوشل میڈیا کے درست استعمال کی تعلیم دینا ضروری ہے‘ مگر یہ صرف پند و نصائح اور اخلاقی سبق پڑھانے سے ممکن نہ ہو گا۔ قوانین پر سختی سے عمل درآ مد شہریوں کو ان کی ذمہ داریوں کے معاملے میں حساس بنانے کیلئے ضروری ہے۔ اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تجویز ہے کہ اس واقعہ کو‘ جس میں صوبائی حکومت اور پولیس کے مطابق نہ کوئی متاثرہ فرد ہے‘ نہ کوئی شکایت اورنہ ہی کوئی شواہد ‘ ایک چیلنج کے طور پر لیں۔ تعلیمی ماحول کے بارے عوام کو شک و شبہے میں مبتلا کرنے‘ عدم تحفظ کا احساس پھیلانے اور نوجوانوں کو اکسانے کی اس حرکت کو پاکستان میں اشتعال انگیزی اور بد امنی پھیلانے کی ایک سازش کے طور پر لینا ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں