قطر‘ سرمایہ کاری اور امکانات
وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ قطر کے مشترکہ اعلامیہ میں علاقائی اور عالمی چیلنجوں کے پُرامن حل اور دوطرفہ تعلقات میں باہمی تعاون کو مزید بڑھاتے ہوئے اعلیٰ سطحی دوروں کے مسلسل تبادلوں کی اہمیت پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دو روزہ دورۂ قطر میں وزیراعظم شہباز شریف نے قطر کے امیر اور ولی عہد سے ملاقات کی جن میں دو طرفہ تعلقات کے وسیع معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق قطر پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکا ہے اور حالیہ دورے میں اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ قطر پاکستان میں توانائی‘ کان کنی ومعدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے اور اس حوالے سے جلد قطری وفد پاکستان کا دورہ کرے گا جس میں مزید پیشرفت کی امید ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور ون ونڈو آپریشن کے تحت اس سرمایہ کاری کی راہیں ہموار کرنے سے قطری سرمایہ کاروں کو وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکتا ہے۔ اگر باہمی تجارت کی بات کریں تو پاک قطر دو طرفہ تجارت کا حجم لگ بھگ چار ارب ڈالر ہے جس میں توازن سراسر قطر کے حق میں جھکا ہوا ہے۔ 2022ء میں پاکستان نے قطر سے ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد کی گیس اور پٹرولیم مصنوعات درآمد کیں جبکہ برآمدی حجم محض 214 ملین ڈالر تھا۔ زرعی اجناس کے حوالے سے قطر میں پاکستانی مصنوعات کا حصہ خاصی حد تک بڑھایا جا سکتا ہے اگر پیکیجنگ اور معیار پر توجہ دی جائے۔ قطر فوسل فیول پر انحصار گھٹا کر اپنی اقتصادیات کو نئی مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا چاہتا اور نئے مواقع کی تلاش میں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان قطر کا فطری اتحادی ہے جہاں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات ہیں۔ سرمایہ کاری کے علاوہ قطر زرِمبادلہ کے حوالے سے بھی پاکستان کے لیے خاصا پُرکشش ہے۔ اس وقت دو لاکھ سے زائد پاکستانی بسلسلہ روزگار قطر میں مقیم ہیں‘ تاہم گلف ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق قطر میں غیر ملکی کارکنوں کی فہرست میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے جبکہ دیگر علاقائی ممالک مثلاً بھارت‘ نیپال او ربنگلہ دیش سبھی پاکستان سے اوپر ہیں۔ متعدد مواقع پر قطر کی جانب سے پاکستانی کارکنوں کے لیے ویزوں کا اعلان کیا گیا مگر ان مواقع سے کماحقہٗ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ فیفا ورلڈ کپ کے تناظر میں قطر نے پاکستانی ورکروں کو مزید دو لاکھ ویزے دینے کا اعلان کیا تھا مگر صرف 46 ہزار لوگ ہی خلیجی ملک جا پائے۔ دو طرفہ اقتصادی تعاون کے علاوہ حکومتی سطح پر روزگار کے متلاشی افراد کو مختلف شعبوں میں ہنر سکھانے اور ٹریننگ دینے سے مزید کارکنوں کو خلیجی ممالک کی ورک فورس میں کھپایا جا سکتا ہے۔ معاشی ترقی اور ملک کو آگے لے جانے کیلئے جس سیاسی و سماجی استحکام کی ضرورت ہے اس کیلئے بھی خاطر خواہ اقداما ت درکار ہیں۔ جب تک اندرونِ ملک معاشی اور کاروباری حوالے سے ساز گار ماحول پیدا نہیں کیا جاتا‘ بیرونی سرمایہ کاری مستحکم اور دیر پا نہیں ہو گی۔