"KMK" (space) message & send to 7575

’’دی رمبل ان دی جنگل‘‘

اس واقعے کو پورے 50سال ہو چکے ہیں بلکہ درست کہیں تو 50سال اور تین دن۔ مورخہ 30اکتوبر 1974ء کو محمد علی نے جارج فورمین کو کنشاسا (زائرے) میں وہاں کے وقت کے مطابق قریب صبح ساڑھے چار بجے آٹھویں راؤنڈ میں ناک آؤٹ کرکے جہاں دنیا جہاں کے باکسنگ ایکسپرٹس کے اندازوں کا دھڑن تختہ کر دیا وہیں دوسری بار ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وہ صبح میرے لیے کیا عجب بے چین صبح تھی۔
وہ بدھ کا دن تھا اور کالج لگا ہوا تھا۔ جس وقت زائرے (اس کا موجودہ نام ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو ہے) میں صبح چار بجے کے قریب یہ مقابلہ شروع ہوا تو پاکستان میں صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ کسی سے پوچھا کہ باکسنگ کا یہ مقابلہ اتنے نامعقول وقت پر کیوں ہو رہا ہے تو جواب ملا کہ جب کنشاسا میں صبح کے چار بجے ہوں گے تب امریکہ میں ایسٹرن ٹائم کے مطابق رات کے دس بجے ہوتے ہیں اور یہ امریکیوں کیلئے ٹیلی ویژن دیکھنے کا مناسب ترین وقت ہے۔ اس روز صبح سے ہی بے چینی تھی کہ اس مقابلے کا کیا بنتا ہے؟ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ اس روز کالج لگا ہوا تھا بلکہ اس روز انگریزی کا ٹیسٹ تھا ورنہ یہ آوارہ گرد لاہور ہوتا اور تایا جی نواز کے گھر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے پروفیسر خالد ناصر صاحب کو‘ نہایت ہی مہربان‘ شفیق اور قابل استاد تھے مگر نظم و ضبط کے بارے میں ایسے سخت کہ خدا کی پناہ۔ ٹیسٹ چھوڑنے پر انہوں نے اس کی اطلاع فوری طور پر ابا جی کو دینی تھی اور اس کے بعد کے حالات کے بارے میں راوی بیشک خاموش ہے مگر ہمیں راوی کی خاموشی کے باوجود اس غیرحاضری کے نتائج خوب معلوم تھے۔
صبح پہلا پیریڈ اردو کا تھا جو کسی نہ کسی طرح گزر گیا۔ لیکن اس کے بعد تو بے چینی عروج پر تھی۔ موبائل فون تو رہا ایک طرف‘ تب تو بریکنگ نیوز کا بھی دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ہوتا تھا۔ ہم موجود تو کلاس میں تھے مگر دل ہزاروں میل دور کنشاسا شہر میں پھنسا ہوا تھا جہاں میرا ہیرو اپنے سے کہیں کم عمر اور اُس وقت روئے ارض پر سب سے زور دار مکے مارنے والے حریف جارج فورمین سے نبرد آزما تھا۔ یہ تب باکسنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا مقابلہ قرار دیا جا رہا تھا۔ افریقی ملک زائرے (تب اس کا یہی نام تھا) میں ہونے والے اس مقابلے کو ''دی رمبل اِن دی جنگل‘‘ یعنی جنگل میں گڑگڑاہٹ کا نام دیا گیا تھا۔ اس مقابلے کو کنشاسا کے ایرینا میں ساٹھ ہزار ناظرین نے اپنی آنکھوں کے سامنے اور ایک ارب لوگوں نے ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھا جو تب ایک ریکارڈ تھا۔ باکسنگ کے سارے ماہرین اور بڑے بڑے جغادری پیش گو حضرات اس بات پر متفق تھے کہ جارج فورمین نہ صرف یہ مقابلہ جیت جائے گا بلکہ انہیں گمان تھا کہ اس یکطرفہ مقابلے میں 25سالہ جارج فورمین‘ جو بہترین جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ باکسنگ کی تاریخ میں زور دار مکے مارنے والے چند باکسرز میں شمار ہوتا ہے‘ 32سالہ محمد علی کو بہت جلد ناک آؤٹ کر دے گا۔ تب محمد علی کا باکسنگ ریکارڈ 44میں سے دو مقابلے ہارنے کا تھا جبکہ مقابل جارج فورمین اپنے پروفیشنل کیریئر کے 40مقابلے بغیر کسی ہار کے جیت چکا تھا اور ان میں سے 37مقابلے وہ ناک آؤٹ کی بنیاد پر جیتا تھا۔
یہ صرف محمد علی تھا جو اس مقابلے کے بارے میں نہ صرف پُراعتماد تھا بلکہ وہ اپنے مخصوص بڑبولے پن کے ساتھ جارج فورمین کا مذاق اڑانے کے علاوہ حسبِ معمول جملے بازی بھی کر رہا تھا اور ڈینگیں بھی مار رہا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس مقابلے کیلئے کچھ ہٹ کر کیا ہے۔ میں مگرمچھ سے کشتی جیتا ہوں‘ وہیل سے گتھم گتھا ہوا ہوں‘ بجلی کو قید کیا ہے‘ طوفان کو پابند کیا ہے‘ صرف گزشتہ ہفتے میں نے ایک چٹان کو قتل کیا ہے‘ ایک پتھر کو گھائل کیا ہے‘ ایک اینٹ کو ہسپتال کا راستہ دکھایا ہے اور میں نے دوا کو بیمار کیا ہے۔ ایسے پُراعتماد باکسر کو بھلا کون ہرا سکتا تھا؟
محمد علی نے اُس صبح کنشاسا میں جارج فورمین کے ساتھ جو کیا وہ باکسنگ کی تاریخ کا اَنمٹ باب ہے‘ جو تب تک قائم رہے گا جب تک اس روئے ارض پر باکسنگ رِنگ کا وجود باقی ہے۔ پندرہ راؤنڈ پر مشتمل اس مقابلے میں محمد علی نے بالکل نئی‘ ایک ایسی باکسنگ تکنیک کا مظاہرہ کیا جو اس سے قبل نہ کسی نے دیکھی تھی اور نہ ہی کسی کے وہم وگمان میں تھی۔ محمد علی کامل آٹھ راؤنڈ رِنگ کے چاروں طرف دفاعی انداز میں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک جوڑے منہ اور جسم کا دفاع کرتے ہوئے رسوں کے ساتھ ساتھ ڈانس کے انداز میں باکسنگ کی تاریخ کے سب سے شاندار فٹ ورک کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارج فورمین کے زور دار مکے ضائع بھی کر رہا تھا اور موقع پا کراسے جچے تلے اور نہایت موثر مکے بھی مار رہا تھا۔ محمد علی نے اپنی اس نئی تکنیک کو Rope-a-dope کا نام دیا۔ محمد علی کو باکسنگ نے شہرت‘ عزت اور دولت دی تو جواب میں محمد علی نے باکسنگ کو جو کچھ دیا‘ باکسنگ اس کیلئے ہمیشہ محمد علی کی احسان مند رہے گی۔ محمد علی کی نئی باکسنگ تکنیک نے پانچویں راؤنڈ کے بعد جارج فورمین کو نہ صرف زچ کر دیا بلکہ تھکا بھی دیا۔ بقول جارج فورمین‘ میں نے سوچا کہ وہ میرے لیے محض ناک آؤٹ ہونے والا ایک اور ہدف ہے۔ میں جب اس کے جبڑے پر ایک زوردار مکا رسید کرتے ہوئے اس کے قریب گیا تو اس نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ بس جارج! یہی کچھ؟ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب ویسا ہرگز نہیں‘ جیسا میں نے سوچا تھا۔
آٹھواں راؤنڈ ختم ہونے میں تقریباً سولہ سیکنڈ باقی تھے جب رِنگ کے رسوں کے سہارے پیچھے جھک کر فورمین کے مکوں کو ناکارہ بناتا ہوا محمد علی اپنے حریف کے پہلو کی جانب سے باہر نکلا اور صرف پانچ مکوں پر مشتمل ایک شاندار حملہ کیا اور چند سیکنڈ میں معاملہ ختم ہو گیا۔ راؤنڈ ختم ہونے سے دس سیکنڈ پہلے جارج فورمین نے اپنی پروفیشنل باکسنگ کیریئر میں پہلی بار فرش کی شکل دیکھی۔ دس سیکنڈ کی گنتی مکمل ہوئی اور مقابلہ اختتام کو پہنچا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس آٹھ راؤنڈ کے مقابلے میں جارج فورمین نے اَن گنت مکے مارے لیکن ان میں سے بیشتر یا تو ضائع گئے یا غیر اہم مقام پر رسید ہوئے۔ جبکہ محمد علی نے کہیں کم لیکن ہدف پر مکے مار کر زیادہ پوائنٹ بنائے۔ تین ججوں کے مطابق محمد علی نے یہ مقابلہ 66-68‘ 67-70 اور 66-69سے جیتا۔ یعنی ناک آؤٹ سے قطع نظر بھی محمد علی اس مقابلے کا فاتح تھا جو باکسنگ کے ماہرین کے اندازوں پر زوردار جوتا تھا۔
باکسنگ کے رسالے The Ring‘ جسے باکسنگ کے حلقوں میں باکسنگ کی بائبل کہا جاتا ہے‘ نے قرار دیا کہ 'رمبل اِن دی جنگل‘ نے ثابت کیا ہے کہ محمد علی باکسنگ GOAT یعنی گریٹیسٹ آف آل ٹائم ہے۔ 30اکتوبر کو میں نے اس مقابلے کے 50سال پورے ہونے کے حوالے سے شاہ جی سے اپنی یادیں شیئر کیں تو شاہ جی کہنے لگے: تم نے شاید غور نہیں کیا کہ ہمارے ہاں گزشتہ 70سال سے ایک عجیب و غریب قسم کی مکے بازی جاری ہے اور کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ کوئی اس گلے سڑے نظام کو ناک آؤٹ نہیں کر رہا۔ میں نے کہا: شاہ جی ایسا نہ کہیں! ہر آٹھ دس سال بعد کوئی زور آور باکسر رنگ میں داخل ہو کر میچ کو ناک آؤٹ کی بنیاد پر ختم کر دیتا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: جس کا تم ذکر کر رہے ہو وہ باکسر نہیں‘ اس میچ کی سکیورٹی پر متعین سیکورٹی ٹیم کا انچارج ہوتا ہے جو بندوق کے زور پر رنگ پر قبضہ کر لیتا ہے اور دوسرے باکسر مالشیے بن جاتے ہیں۔ میں نے کہا: شاہ جی شرپسندی تو آپ پر ختم ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: اگر تم باکسنگ جیسے معاملے میں سیاست گھسیٹرو گے تو اسی قسم کے جواب ملیں گے۔ میں کہا شاہ جی! بھول چوک بھی بندے سے ہی ہوتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں