دہشت گردی کی المناکی
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کے تازہ واقعے نے ایک بار پھر ان خطرات کی جانب توجہ دلائی ہے ملک عزیز جن کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے 141اور بلوچستان میں 68 واقعات ہوئے جبکہ تیسری سہ ماہی کے دوران ان صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات بالترتیب 197اور 105تک پہنچ گئے۔دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں جانی نقصان کا جائزہ لیا جائے تو یہ تشویشناک اعدادوشمار سامنے آتے ہیں کہ اس دوران دہشتگردی کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کی اموات میں 134 فیصد جبکہ سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں میں 65 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اعدادوشمار سال کی تیسری سہ ماہی تک کے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران ملک میں دہشتگردی کے قریب 135واقعات ہو چکے ہیں جن میں 390 کے قریب جانی نقصان کا اندازہ ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا اس دوران بھی بدستور دہشت گردی کے نشانے پر رہے اور ایسے متعدد گھناؤنے واقعات رونما ہوئے جن کا نشانہ عام شہری‘ مزدور اور مسافر تھے۔ گزشتہ روز کا مستونگ بازار کا واقعہ ان اعدادوشمار میں شامل نہیں تاہم نوعیت کے اعتبار سے ان پہلے واقعات سے ملتا جلتا ہے جن میں عام شہری دہشتگردوں کا نشانہ بنے۔ ان واقعات سے ایک بات واضح ہو جانی چاہیے کہ دہشتگردی کا مقابلہ من حیث القوم ہی ممکن ہے۔ اس وسیع درجے کے خطرے سے نمٹنے کی ذمہ داری کسی ایک یا چند ایک اداروں پر عائد کرنا خطرے کی نوعیت کا غلط اندازہ لگانے کے مترادف ہے۔ دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے سے قبل دہشتگردوں کے طریقہ واردات کی حرکیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ دہشتگردعام شہریوں کو نشانہ بنا کر ملک میں بے یقینی‘ عدم تحفظ‘ حکومت اور اداروں پر عدم اعتماد اور عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچاناچاہتے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں اور ان منصوبوں میں خدمات انجام دینے والے افراد کو ہدف بنا کر ملکی اور غیر ملکی ہنر مند افرادی قوت کو پاکستان کی ترقی کے ضامن ان منصوبوں سے دور رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ ضروری ہے کہ دہشتگردوں کی منصوبہ بندی کا ترتیب وار مقابلہ کیا جائے۔ سکیورٹی اداروں کو دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں میں نشانہ بنانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے اور یہ کام بخوبی انجام دیا جارہا ہے‘ مگر یہ واضح رہنا چاہیے کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشنل کارروائیاں ملک میں سکیورٹی کے خطرات کا ازالہ کرنے کیلئے کافی نہیں۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کہ دہشتگردوں کے خلاف ایسی کارروائیوں کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں کہ خطرہ ختم ہو گیا ہے۔ اس کیلئے ظاہری اور خفیہ کارروائیوں کا سلسلہ وار جاری رہنا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں یہ عمل کئی دہائیوں تک جاری رکھنا پڑے۔ قبائلی علاقہ جات کی مثال سامنے ہے ۔ خطرے کا مستقل دفعیہ کرنے کیلئے ان علاقوں میں ترقیاتی عمل اور معاشی سرگرمیوں کی ترقی کی بھی ضرورت تھی نیز حکومتی نظام کو وسعت دے کر دہشت پسند عناصر کیلئے ان علاقوں میں رہی سہی گنجائش کا خاتمہ کیا جانا چاہیے تھا۔ اس غرض سے قبائلی علاقہ جات میں فوجی کارروائیوں کے بعد ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کی گئی‘ مگر یہ کام صوبائی حکومتوں کے ذریعے ہی ہو سکتا تھا جو کہ نہیں ہوا۔ بلوچستان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں جہاں صوبائی حکومت پچھلے ایک عرصے سے دہشتگردی کے ہر واقعے کے بعد باقاعدگی سے بیان جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ ملک کے دونوں صوبے جنہیں افغانستان کے ساتھ ہمسائیگی کے ناتے فرنٹ لائن صوبے کہنا چاہیے دہشتگردی سے نمٹنے میں اپنی کلیدی ذمہ داریوں سے اس قدر لاپروائی کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟