فضائی آلودگی‘ پائیدار حل کی ضرورت
کئی روز کی شدید سموگ کے بعدپنجاب کے میدانی علاقوں کے موسم میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے اور ہوا کا معیار جو گزشتہ ہفتے کے دوران خوفناک حد تک گر چکا تھا‘ نمایاں طور پر بہترہوا ہے اور گزشتہ شام لاہور آلودگی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر تھا جو اس سے قبل بلا شرکت غیرے پہلے نمبر پر رہا ہے۔ یہ بہتری خوش آئندہے مگر یہ مد نظر رہنا چاہیے کہ آلودگی کا خطرہ بدستور موجود ہے‘ اور کسی بھی وقت ہواؤں کا رُخ تبدیل ہونے سے پہلے جیسی گلا گھونٹ دینے والی سموگ ہمارے شہروں کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ سمجھداری اس میں ہے کہ اس عارضی ریلیف کو قدرت کی جانب سے ایک رعایت تصور کیا جائے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آلودگی کے خاتمے کے لیے ُپُر عزم ہو کر کام کیا جائے۔ سموگ کوموسمی مسئلہ سمجھنا بڑی غلطی ہے۔ یہ دھواں ہمارے ماحول میں سال بھر موجود ہوتا ہے‘ بس یہ سمجھنا چاہیے کہ اکتوبر‘ نومبر میں اسے سموگ کی صورت اختیار کرنے کے حالات مل جاتے ہیں ورنہ یہ آلودگی سال بھر اسی ہوا میں شامل ہوتی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔لہٰذا سموگ کے وقتی حل کے بجائے آلودگی کے مسئلے کا جامع حل تلاش کرنا ہو گا اور اس کیلئے کثیر جہتی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ بعض اقدامات کی فوری ضرورت ہے جیسا کہ گاڑیوں کے دھویں کی تخفیف کے سنجیدہ اقدامات‘ بعض اقدامات طویل مدتی ہوں گے جیسا کہ شجر کاری‘ اور بعض اقدامات کو مستقل جاری رکھنا ہو گا جیسا کہ صنعتی فضلے اور گیسوں کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے ماحولیاتی معیار پر عمل درآمد۔ سموگ ایسا مسئلہ نہیں کہ اس کا حل تلاش کرنا ایسا مشکل ہو۔ حالیہ چند برسوں کے دوران یہ مسئلہ چین کو درپیش تھا اور چینی حکومت نے جس طرح اس پر قابو پایا وہ د نیا کے لیے حیران کن ہے۔مگر چین نے اس پر جتنی سرمایہ کاری کی ہمارے لیے وہ ممکن نہیں؛ چنانچہ ہمیں کم خرچ منصوبوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے سائنسی سوچ سے کام کرنا ہو گا‘اور آلودگی کے اصل اسباب پر توجہ دینا ہو گی نہ کہ وہم و گمان کی بنیاد پر ہوا میں تیر چلائے جائیں۔ بھارت کے ساتھ ماحولیاتی سفارت کاری کا تصور بظاہر بھلا معلوم ہوتا ہے مگر یہ سبھی جانتے ہیں کہ اس سے کچھ حاصل ہونے کی امید کم ہے‘ اس لیے ہماری ساری توجہ اپنے آپ پر ہونی چاہیے۔ گاڑیوں کے دھویں کو کم کیے بغیر فضا میں آلودگی کا تناسب کم نہیں ہو سکتا اور عملاً یہ بھی ممکن نہیں کہ سال کا کچھ حصہ کاروباری‘ دفتری اور تعلیمی سرگرمیاں بند کر دی جائیں۔ اس لیے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مستقل مزاجی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے۔ سرگرمیوں کی بندش کی اپنی قیمت ہے‘ کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ معیشت کا سلسلہ جڑا ہے اور تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔ ہر سال طویل دورانیے تک ان سرگرمیوں کی بندش کے جو نقصانات ہیں وہ بھی ماحولیاتی آلودگی سے کم نہیں۔ اس لیے بیچ کا راستہ اختیار کرنا ہو گا‘ جو درست راستہ ہے۔ آلودگی میں کمی چاہیے تو اس کے لیے سارا سال اقدامات جاری رکھنا ہوں گے نہ کہ اُس وقت جب سموگ کا غبار شہروں دیہاتوں کو لپیٹ میں لے چکا ہو۔ ضروری ہے کہ اس مسئلے کو قو می سطح پر سنجیدگی سے لیا جائے اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاقی حکومت بھی ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات پر توجہ دے۔ ہوا میں آلودگی کے پچھلے برسوں کے اعدادوشمار ہر سال آلودگی کی شرح میں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس سال پنجاب کے شہری علاقوں‘ خاص طور پر لاہور اورملتان کے علاقوں میں جو صورتحال رہی یہ پچھلے برسوں سے کہیں زیادہ تھی۔ مؤثر اقدامات نہ ہو ئے‘ سموگ کو موسمی لہر سمجھا گیا اور دھواں چھوڑنے کی رفتار یہی رہی تو آنے والے سال اندیشہ ہے کہ یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا اور صورتحال کو سنبھالنا کہیں مشکل ہو گا۔