1970ء میں جب میں جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے سٹوڈنٹ یونین کا صدر منتخب ہوا تو ایک کیس میں مجھے پانچ ساتھیوں سمیت سمری ملٹری عدالت نے ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ ہمارے مخالفین‘ جہانگیر بدر گروپ کے بھی کئی ارکان کو اسی عدالت سے ایک ایک سال کی سزا مل چکی تھی۔ ہمیں مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ مجھے سینٹرل جیل ساہیوال میں مقید کیا گیا‘ جہاں شروع میں تو حالات خاصے سخت تھے مگر کچھ ہی عرصہ گزرا کہ صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ زمانۂ طالبعلمی میں بھی اور جماعتی زندگی میں بھی‘ جیل یاترا سے کئی مرتبہ گزرنا پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے ہر مرتبہ اپنی خصوصی رحمت سے آسانیاں پیدا فرمائیں۔
ایک دو مہینے گزرنے کے بعد ساہیوال جیل میں کوئی اجنبیت نہیں تھی۔ اکثر وبیشتر قیدی مجھ سے اتنے مانوس ہو گئے تھے کہ وہ بڑی محبت اور احترام کے ساتھ ملتے جیسے مدتوں کی دوستی یا قریبی تعلق داری ہو۔ اس دوران ملک بھر میں انتخابات عام کی مہم زوروں پر تھی۔ یہ مہم تقریباً آٹھ نو ماہ جاری رہی۔ جماعت اسلامی نے ملک کے دونوں حصوں‘ مشرقی ومغربی پاکستان میں کافی سیٹوں پر اپنے نمائندے کھڑے کیے ہوئے تھے۔ ملک کے معروف صحافی اور شعلہ نوا خطیب جناب شورش کاشمیری جماعت کے انتخابی اور عوامی جلسوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ ساہیوال میں بھی ایک جلسے میں ان کو مدعو کیا گیا۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ عصر کے قریب جیل کے ایک کارندے نے مجھے پیغام دیا کہ میری ملاقات آئی ہے۔ میں نے کہا کہ آج تو اتوار ہے‘ اتوار کو کیسے ملاقات آئی ہے؟ اس نے کہا کہ جناب آپ کے ملاقاتی جو آئے ہیں ان کی آمد سے جیل کے در ودیوار ہل کر رہ گئے ہیں۔ داروغۂ جیل جناب عثمانی صاحب خود اپنے گھر سے دفتر میں آ گئے ہیں اور آپ کے ملاقاتی سے بڑے ادب واحترام سے گفتگو کر رہے ہیں۔ مجھے انداز ہ نہیں تھا کہ یہ ملاقاتی کون ہے۔ میں کارندے کے ساتھ ڈیوڑھی میں پہنچا اور پھر داروغہ صاحب کے دفتر میں داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جناب شورش کاشمیری وہاں تشریف فرما تھے۔
مجھے دیکھتے ہی شورش بڑی محبت سے اٹھ کر میری طرف بڑھے اور میرے ساتھ بغلگیر ہو گئے۔ ان کا وہ محبت بھرا معانقہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے چائے‘ نمکو‘ کیک‘ بسکٹ منگوائے اور شورش صاحب سے معذرت کی کہ وہ زیادہ خدمت نہیں کر سکے۔ شورش صاحب نے قہقہہ لگایا اور پھر کہا: عثمانی صاحب اس جیل میں میری بہت زیادہ خدمت کی جاتی رہی ہے۔ (مرحوم کا اشارہ ان عقوبتوں اور سختیوں کی طرف تھا جن سے ساہیوال جیل میں قید کے دوران مسلسل ان کو سابقہ پیش آتا رہا۔ آپ نے اپنی کتابوں میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے)۔ چائے کے دوران شورش صاحب نے کہا کہ ابھی تمہارے بارے میں عثمانی صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ تم بہت عجیب بلکہ ضدی نوجوان ہو۔ معافی اور رہائی کی پیشکش کو تم نے مکمل طور پر ٹھکرا دیا۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے عثمانی صاحب کو بتایا ہے کہ سید مودودیؒ کی فکر جس شخص کے دل ودماغ میں رچ بس جائے وہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کر سکتا۔ شورش صاحب نے اپنے بھی واقعات سنائے اور کئی امور پر ایک گھنٹہ بھر کی اس انتہائی شیریں نشست میں روشنی ڈالتے رہے۔ مرحوم کی عزیمت و استقامت اپنی مثال آپ تھی۔ میری رہائی کے بعد ایک مجلس میں شورش صاحب اور بعض دیگر احباب بیٹھے تھے کہ شورش صاحب نے نہایت محبت بھرے انداز میں جیل میں مجھ سے ملاقات کا تذکرہ کیا‘ جس سے سب دوست بہت محظوظ ہوئے۔
جیل میں ماہ رمضان المبارک 1390ھ کی آمد سے قبل مجھے فکرمندی تھی کہ میں اپنی چکی میں بند ہوں گا تو تراویح میں قرآن پاک سنانے کا اہتمام نہیں ہو پائے گا۔ فضل کریم شاد صاحب نے تجویز پیش کی کہ میں ایک درخواست لکھ کر سپرنٹنڈنٹ صاحب سے اجازت لے لوں کہ مجھے ایک بیرک میں رمضان کے دوران منتقل کر دیا جائے تاکہ وہاں تراویح میں قرآن سنانے کا اہتمام ہو سکے۔ ہر بیرک کا ایک نمبر ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس بیرک کا نمبر کیا تھا۔ بہرحال فضل کریم اور ان کے بہت سارے دیگر ساتھی اس بیرک میں مقیّد تھے۔ میں نے درخواست دی تو مجھے اس بیرک میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں قیدیوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ تھی۔ اس ماہ رمضان میں جو یکم نومبر 1970ء کو شروع ہوا‘ میں نے نمازِ تراویح میں پورا قرآن سنایا اور ہر روز خلاصہ مضامینِ قرآن بھی بیان کرتا تھا۔
بیرک میں مقیم قیدیوں کی بڑی تعداد نمازِ تراویح میں شریک ہوتی تھی۔ بعض آٹھ پڑھ کر اپنے اپنے بستر پر چلے جاتے جبکہ بعض پوری تراویح پڑھنے کے بعد جاتے۔ پندرہ‘ بیس نمازی ایسے تھے جو مکمل خلاصہ سنتے تھے۔ بیرک کے اندر نمازِ تراویح کے لیے جس انداز میں صفیں بچھانے کا اہتمام کیا گیا وہ بھی بڑا کمال تھا۔ جگہ کی کمی کے باوجود بڑے سلیقے کے ساتھ صفیں بچھائی جاتیں اور سب لوگ ان پر کھڑے ہو جاتے۔ کچھ نمازی اپنے ذاتی جائے نماز لا کر بچھا لیتے۔ وہ رمضان واقعی یادگار تھا۔ قرآن پاک کی ہر سورت اور ہر آیت کا لطف اب تک یاد ہے مگر جس روز سورۂ یوسف کی تلاوت ہوئی‘ اس کا تو ایسا سماں تھا کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح آخری تراویح میں قرآن کی تکمیل اور دعا کے لمحات کی بھی ایک منفرد شان تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سب ساتھیوں کو اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے جو ان سارے مراحل کا حسن تھے۔
ادھر انتخابی مہم سال بھر جاری رہی۔ شیڈول کے مطابق ملک بھر میں قومی اسمبلی کا الیکشن 10دسمبر 1970ء کو ہوا اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 17 دسمبر کو منعقد ہوئے۔ انتخابات کے نتائج سے معلوم ہو چکا تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بڑی کامیابی ملی ہے اور مغربی پاکستان میں بحیثیت مجموعی پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری ہے۔ انتخابی نتائج آنے پر بھٹو صاحب نے جماعت اسلامی کو نشانۂ تنقید بناتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں فکس اَپ کر دوں گا! خیر ہمیں ایسی دھمکیوں سے کیا لینا دینا تھا۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کو مرکز میں صرف چار اور ہر صوبائی اسمبلی میں سوائے بلوچستان کے‘ صرف ایک ایک نشست پر کامیابی ملی۔ اس صورتحال پر میں اور میرے جیل میں قیام کے دوران ہمارے حلقے میں شامل ہونے والے تمام قیدی بھائی بھی کافی غمزدہ تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دینے کی مقدور بھر کوشش کی اور پیپلز پارٹی کے حامیوں کومبارکباد اور خیرسگالی کا پیغام دیا۔ اس پر ہر شخص کا مثبت تاثر سامنے آیا۔
17 دسمبر کی رات کو تقریباً دس بجے جیل حکام میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کی رہائی کے احکامات آ چکے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں کل چلا جائوں گا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے تو آپ کو ایک گھنٹہ بھی مزید رکھنا کسی صورت ممکن نہیں۔ جیل میں حکام کی اپنی مجبوریاں تھیں اور میرے لیے رات کے وقت اچانک جیل سے نکلنے کے اپنے مسائل تھے۔ بحث وتکرار کے دوران میں نے ان سے کہا: رات کے اس وقت میں کہاں جائوں گا؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے لیے ملازمین میں سے کسی کے گھر رہائش کا بندوبست کر دیں گے۔ بہرحال اس رات مجھے جیل سے نکال دیا گیا اور میں ایک تانگے میں بیٹھ کر جماعت کے ساہیوال دفتر پہنچا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو سید منور بخاری صاحب نے دروازہ کھولا اور تعجب سے پوچھا کہ میں کیسے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ جیل سے بھاگ کر آگیا ہوں۔ بخاری صاحب قدرے پریشان ہو گئے تو مجھے ہنسی آ گئی۔ خیر‘ وہ رات دفتر میں گزری اور اگلے روز ساہیوال کے ساتھیوں کو جونہی پتا چلتا گیا وہ ملاقات کے لیے آتے گئے۔ پھر اسی روز ٹرین سے لاہور روانگی ہوئی۔ یوں زندگی کا یہ ایک سال جیل میں بیت گیا۔