آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے 'مارگلہ ڈائیلاگ‘ کی تقریب سے خطاب میں علاقائی ہم آہنگی اور بین الاقوامی امن پر جو گفتگو کی ہے دراصل دنیا کے اکثر ممالک برسوں سے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مگر ہمیں یہ بات سمجھنے میں کچھ عرصہ لگا ہے۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ''ہم کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘ ہماری سکیورٹی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے ہمارے اربابِ اختیار اس امر کا ادراک کرنے سے قاصر رہے کہ جس جنگ میں ہم اپنی معیشت اور عوام کی زندگیوں کو جھونک رہے ہیں وہ جنگ ہماری ہے بھی یا نہیں۔ اگر بروقت اس کا ادراک کر لیا جاتا تو شاید دہشت گرد یوں دندناتے نہ پھر رہے ہوتے اور ہماری معیشت کو بھی بیرونی سہاروں کی ضرورت نہ ہوتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں میں امن و امان قائم رہا‘ انہوں نے ترقی کی بلندیوں کو چھوا۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں جنگ و جدل کا بازار گرم رہا‘ وہ پسماندگی کی دلدل میں دھنس گئے۔امن پسند اور متوازن خارجہ پالیسی سے نہ صرف ملکی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ اقتصادی ترقی کے راستے بھی ہموار ہو سکتے ہیں۔ امن پسندی اور متوازن پالیسی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں مصلحت کی چادر اوڑھ لی جائے بلکہ یہ ایسی حکمت عملی ہے جس کا مقصد تنازعات سے دور رہ کر امن و امان قائم کرنا اور اقتصادی طور پر ترقی کرنا ہے۔ اس پالیسی کے تحت اپنے دفاعی اور اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی خارجہ پالیسی وضع کی جاتی ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے تنازعات کم ہوتے ہیں اور امن و امان قائم ہوتا ہے۔
اس حوالے سے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے متوازن پالیسی اپنا کر ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امن پسندی اور اقتصادی ترقی کو اپنا نصب العین بنایا۔ جاپان نے اپنے دفاعی بجٹ کو کم رکھا اور اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کی۔ اس کے نتیجے میں جاپان دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہو گیا۔ سوئٹزرلینڈ بھی امن پسندی اور متوازن پالیسی کا ایک نمونہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ اپنی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کی وجہ سے دونوں عالمی جنگوں سے دور رہا۔ اس نے اپنے بینکنگ سیکٹر اور سیاحت کی صنعت کو ترقی دی اور دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہو گیا۔ سویڈن کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ امن پسندی اور متوازن پالیسی نہ صرف ملک کو امن و امان فراہم کرتی ہے بلکہ اسے اقتصادی ترقی کی راہ پر بھی گامزن کرتی ہے۔ ہمارے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ اگر ہم امن پسندی اور مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں تو ہم بھی ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کے انفراسٹرکچر سے لگایا جاتا ہے۔ مذکورہ ممالک کے انفراسٹرکچر کو دیکھ لیں اور جو ممالک جنگ سے متاثر ہوئے ان کا انفراسٹرکچر دیکھ لیں‘ آپ خود ہی نتیجے تک پہنچ جائیں گے کہ کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں جنگوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں کے در و دیوار وہاں کی تباہ حالی کا ماتم کر رہے ہوتے ہیں۔ افغانستان کے چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر پورا ملک کھنڈرات کا نقشہ پیش کر رہا ہے‘ لوگوں کی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ بیشتر گھر کچے ہیں‘ پورے کے پورے گائوں بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ ملکوں کی تعمیر پر نسلوں کی محنت لگتی ہے مگر جنگ لمحوں میں اس محنت کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیتی ہے۔ دو دہائیوں پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 150 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھایا ہے۔ ذرا تصور کریں یہ کتنی بڑی رقم بنتی ہے آج ہم سات ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ دہشت گردی کے خطرات نہ ہوتے تو یہ خطیر رقم یقینا ترقیاتی کاموں اور عوام پر خرچ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جنگوں سے کنارہ کشی کر کے معیشت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں دنیا بھر کی توجہ امریکی انتخابات پر مرکوز تھی‘ جن کے نتیجے میں ریپبلکن پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سیاسی تبدیلی سے دنیا میں مزید پیچیدگیاں اور غیر یقینی پیدا ہو گئی ہیں۔ رواں ہفتے لاطینی امریکی ملک پیرو میں ایشیا پیسفک اکنامک سَمٹ جاری ہے جبکہ ان سطور کی اشاعت تک برازیل میں G20 اجلاس شروع ہو چکا ہو گا۔ یہ فورمز اقتصادی تعاون اور بین الاقوامی روابط کو مضبوط کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ دنیا کی پیچیدہ صورتحال میں چین نے تعاون اور باہمی فائدے پر مبنی نئے عالمی تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے خطابات میں جدید ترقی‘ کنیکٹیوٹی‘ مساوات‘ باہمی فائدے اور بہتر حکمرانی کے موضوعات سامنے آئے ہیں۔ اب یہ سوچنے کا وقت ہے کہ کیسے معیشتیں ان اصولوں کو اپنائیں‘ انہیں کس مؤثر طریقے سے نافذ کریں اور آنے والی دہائیوں میں کیسے برقرار رکھیں۔
دنیا آج عالمگیریت کے پیچیدہ دور سے گزر رہی ہے۔ مختلف ممالک اپنے مفادات کے مطابق عالمی نظام کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ پہلے دنیا میں ایک ہی ملک سب سے زیادہ طاقتور ہوتا تھا‘ لیکن اب مختلف ممالک اپنی اپنی طاقت دکھا رہے ہیں اور دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ چینی ترقی کے ماڈل کے مطابق دنیا بھر میں چیلنجز کے پیش نظر ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف ممالک کے پاس مختلف وسائل ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تیل‘ چین میں سکلڈ لیبر اور مغرب میں ٹیکنالوجی ہے۔ باہمی تعاون سے یہ وسائل بہتر طریقے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تعاون سے عالمی چیلنجز جیسا کہ موسمیاتی تبدیلیاں‘ وبائیں اور دہشت گردی سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک امن اور ترقی چاہتے ہیں‘ اسی لیے وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد سے تعاون صرف تجارت تک محدود نہیں رہا بلکہ مختلف شعبوں میں پھیل گیا ہے۔ ممالک باہمی احترام کے ساتھ اپنے مفادات کو حاصل کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے خدشات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ لوگ اب ایسے کاموں کو پسند کر رہے ہیں جہاں سب کو فائدہ ہو۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے چین اور دیگر ممالک مشترکہ ترقی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اقوام متحدہ جیسی تنظیموں کے ذریعے ممالک عالمی مسائل حل کرتے ہیں۔ تعاون سے سرحدی تنازعات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک میں سکیورٹی کے چیلنجز موجود ہیں‘ اقتصادی تعاون بڑھا کر علاقائی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ہر ملک اپنے معاشی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے امن کیلئے بھی کردار ادا کرے گا۔
دنیا میں ترقی کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ چین نے اپنی تیز رفتار ٹرین کی ٹیکنالوجی سے یہ ثابت کیا ہے۔ چین نے دنیا بھر میں ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی ہے اور تجارت کو آسان بنایا ہے۔ چین نے ماحول دوست ٹیکنالوجی اور غربت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین نے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے عالمی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے چار پڑوسی ممالک میں سے دو کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں‘ ایسے ماحول میں ظاہر ہے تجارت کے دروازے بھی بند ہیں۔ پاکستان‘ بھارت اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں لیکن متوازن خارجہ پالیسی کے فقدان کے باعث ہم ایک دوسرے کے وسائل سے مستفید نہیں ہو رہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور چین کو دیکھ لیں‘ ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہے‘ کئی معاملات پر کشیدگی بھی پائی جاتی ہے مگر تجارتی معاملات میں تعطل نہیں آتا کیونکہ معاشی ترقی ان ممالک کی ترجیح ہے۔ ہم بھی جب تک معاشی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے مسائل ہمیں چاروں طرف سے گھیرے رکھیں گے۔