صنفی تشدد کا خاتمہ ناگزیر
آج دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے‘ جس کا مقصد خواتین پر گھریلو وجسمانی تشدد‘ انہیں ہراساں کرنے کا خاتمہ اور کام کے دوران پیش آنے والے مسائل کا خاتمہ کرنا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کو صنفی بنیاد پر تشد د کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ تاہم ترقی یافتہ دنیا کی نسبت پسماندہ وترقی پذیر ممالک میں صورتحال کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق پاکستان میں 28 فیصد بالغ جبکہ 34 فیصد شادی شدہ خواتین کو کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ اعداد شمار اصل صورتحال کی مکمل عکاسی نہیں کرتے کیونکہ سماجی سطح پر ایسے واقعات کی شکایت درج کرانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ آج یہ دن ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب چند روز قبل ڈسکہ میں ایک خاتون کے لرزہ خیز قتل کا واقعہ پیش آیا جبکہ دو روز قبل ساہیوال میں گھریلو تنازع پر ایک خاتون کو زندہ جلا دیا گیا۔ ایسے سفاک واقعات کی نہ تو معاشرتی روایات اور نہ ہی ہمارے مذہب میں کوئی گنجائش ہے۔ نبی آخر الزماںﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں بھی خواتین سے حسنِ سلوک کی وصیت فرمائی تھی۔ صنفی تفریق اور تشدد کے خاتمے کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں مگر ضرورت ہے کہ محض قانون سازی پر ہی زور نہ دیا جائے بلکہ قانون کا مؤثر نفاذ بھی یقینی بنایا جائے۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے لیے ہر طبقہ فکرکو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔