افہام تفہیم کا دور کب آئے گا؟
ملک کی سیاسی صورتحال کی تشویش بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور ترقی کا سفر متاثر ہوتا ہے۔ ترقی کا عمل سماجی اور سیاسی سطح پر ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے‘ احتجاج اس کی ضد ہیں؛ چنانچہ معیشت اور معاشرت کو احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ملکِ عزیز کو جن مسائل کا سامنا ہے ایسے میں سیاسی قیادت سے اختلافات بھلا کر قومی مسائل کی جانب متوجہ ہونے کی توقع کی جاتی ہے‘ مگر بدقسمتی سے سیاسی رہنماؤں کیلئے ان کے سیاسی مفادات ہی ترجیحِ اول ہیں۔ اس دوران جب خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات شدت اختیار کر چکے ہیں اور صوبے کے ایک حصے میں قبائلی تصادم جبکہ دوسرے میں فتنہ الخوارج کی وارداتیں زور پکڑ رہی ہیں‘ صوبائی حکومت کی پوری توجہ قیام امن کی جانب ہونی چاہیے تھی‘ مگر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ان مسائل پر توجہ دینے کے بجائے وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کیلئے کمر کسی ہوئی ہے۔ پنجاب کی جانب تو حکومت نے شاہراہوں پر تہ در تہ رکاوٹیں کھڑی کر کے اور شہروں کی ناکہ بندی کرکے احتجاجی جلوسوں کو روکنے کے مؤثر اقدامات کر رکھے ہیں مگر اسلام آباد کی دوسری جانب خیبر پختونخوا کی طرف صورتحال مختلف ہے۔ اُدھر صوبائی حکومت خود سیاسی احتجاج کی محرک ومنتظم ہے تو لوگوں کا ساتھ مل جانا حیران کن نہیں۔ مگر وفاقی حکومت پُرعزم ہے کہ اسلام آباد میں کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت نے جو انتظامات کیے ہیں وہ واقعی اتنے قوی نظر آتے ہیں کہ اپنے مقاصد میں کامیاب ثابت ہو سکیں‘ مگر سوال یہ ہے کہ آئے روز ایسے حالات کیوں پیش آتے ہیں کہ یوں طاقت کا استعمال کرنا پڑے۔ کوئی ملک بھی اس طرح کی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ احتجاج کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اس کیلئے جو انتظامی اقدامات کیے جاتے ہیں ان کا اثر اُن لوگوں پر بھی پڑتا ہے جن کا احتجاج سے کوئی تعلق نہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کے علاقوں میں سڑکیں بند ہونے سے ملک کے ایک بڑے حصے میں آمدورفت مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔ صورتحال کچھ دن یونہی رہی تو شہروں میں دودھ‘ سبزیاں اور دیگر ضروری اشیا کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو تو شاید ان معاملات سے غرض نہ ہو مگر حکومت کو ان پہلوؤں پر بھی غور کرنا ہوتا ہے‘ اس لیے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ احتجاج کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ حکومت کے پاس اس سلسلے میں کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے اور معاملہ اگر سیاسی نوعیت کا ہو تو اس پر عمل درآمد کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ حالیہ احتجاج کا اعلان ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں بات چیت کا عندیہ دیا جا رہا تھا مگر عملاً کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اگر ہو جاتی تو آج ملک میں جو حالات ہیں ان سے با آسانی بچا جا سکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے انتظامی اقدامات ناگزیر تھے اور اس سے ملک کے اکثر حصوں میں سیاسی احتجاج کو روکنے میں کامیابی ملی ہے مگر سیاسی نعروں کا مقابلہ صرف انتظامی حکمت عملی سے نہیں ہو سکتا۔ اس کیلئے ’گاجر اور چھڑی‘ والی حکمت عملی سے کام لینا مناسب ہے کہ کچھ معاملات میں ڈھیل دے کر کچھ معاملات میں سختی کر کے بندوبست کیا جائے۔ صرف طاقت کا استعمال کوئی حکمت عملی نہیں‘ اس کے نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں مگر حکومت ہاتھ باندھ کر بھی کھڑی نہیں رہ سکتی؛ چنانچہ بہتر یہی ہوتا کہ دوسرے سیاسی فریق کو مذاکرات میں مصروف کیا جاتا۔ ملک کی حکومت سیاسی جماعت کی ہے‘ سیاسی جماعت کے احساسات کو اس سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اب بھی شاید وقت ہاتھ سے گیا نہیں۔ افہام وتفہیم کی کوئی صورت اب بھی نکالی جا سکتی ہے‘ اور یقینا نکالی جانی چاہیے کہ اس کے بغیر دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ کہتے ہیں بحران کو ضائع مت جانے دیں۔ حکومت اور اپوزیشن چاہیں تو اس بحرانی کیفیت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔