سیاسی احتجاج، ملکی تشخص پراثرات
پی ٹی آئی کا احتجاجی جلوس وفاقی دارالحکومت کے دروازے پر کھڑا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت اور احتجاجی جماعت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ ختم ہوا ہے۔وفاقی دارالحکومت میں احتجاج آئے روز کا واقعہ بن چکے ہیں ۔ یہ صورتحال جڑواں شہروں کی آبادی کیلئے جو مشکلات لے کر آتی ہے وہ اپنی جگہ مگر پاکستان کے عالمی تشخص پر اس کے غیر معمولی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے قبل وفاقی دارالحکومت میں جو احتجاج منظم کیا گیا تھا اُس وقت یہاں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہو رہا تھا اور چین سمیت رکن ممالک کی اعلیٰ قیادت پاکستان کی مہمان تھی‘ جبکہ اس بار بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو 68 رکنی وفد کے ساتھ تین روزدورے پر اسلام آباد میں ہیں اور دونوں ملکوں میں متعدد مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کی توقع کی جاتی ہے۔بیلاروس کے صدر کے وفد میں وزیر خارجہ‘ وزیر توانائی‘ وزیر انصاف‘ وزیر مواصلات‘ وزیر قدرتی وسائل اور سربراہ ملٹری انڈسٹری کمیٹی سمیت بیلاروس کی 43 نمایاں کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس وفد سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک صنعت‘ مواصلات‘ توانائی اور قدرتی وسائل کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں جبکہ پاکستان بیلاروس بزنس فورم کے انعقاد سے دونوں ملکوں میں بزنس ٹو بزنس سطح پر تعلقات مستحکم ہوں گے۔ بیلاروس مشرقی یورپ کا اہم صنعتی ملک ہے جو توانائی کی دولت سے مالا مال اور ہیوی مشینری مینوفیکچرنگ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ پاکستان 1991ء میں سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد بیلاروس کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے مگر دونوں ملکوںکے اعلیٰ سفارتی تعلقات کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ پہلی بار مئی 2015ء میں بیلاروس کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا‘ اسی سال 10 اگست کو وزیر اعظم نواز شریف نے بیلاروس کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے مضبوط دوطرفہ تعلقات کی بنیاد رکھی۔ پاکستان اور بیلاروس علاقائی تجارت اور رابطہ کاری کے فروغ کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم میں شراکت دار ہیں۔ پاکستان جو 25 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کی چھٹی بڑی مارکیٹ ہے اور خطے میں ٹرانزٹ تجارت کا مرکز بننے جا رہا ہے‘ مشرقی یورپی ملک کیلئے امکانات کی سرزمین ثابت ہو سکتا ہے۔ صنعتی شعبوں میں تعاون کے علاوہ ایک دوسرے کی مارکیٹوں تک رسائی سے بھی دونوں ممالک کیلئے تعاون کی نئی راہیں کشادہ ہوں گی۔ پاکستان اور بیلاروس میں تجارت اور صنعتی شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کی خاصی گنجائش ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک پاک بیلاروس دوطرفہ تجارت چھ کروڑ ڈالر کے قریب تھی مگرحالیہ کچھ عرصے کے دوران دونوں ملکوں کی تجارت میں کمی آئی ہے۔2017ء میں بیلاروس سے پاکستا ن نے سات کروڑ ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں جبکہ ایک کروڑ ڈالر کی اشیا بیلاروس کو برآمد کی گئیں ‘تاہم گزرے چند برسوں میں تجارتی حجم میں کمی آئی اور 2022ء میں پاکستان کی برآمدات کا حجم پانچ لاکھ 62 ہزار ڈالر تک سکڑ گیا جبکہ بیلاروس سے درآمدات بھی ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک محدود رہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کے وسیع امکانات ہیں اور توانائی‘ زراعت‘ آئی ٹی اور صنعتی شعبوں میں وسیع مواقع موجود ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس سلسلے میں عملی پیش رفت نظر آئے۔ مگر صنعتی اور معاشی ترقی ملک میں سیاسی استحکام سے مشروط ہوتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں آئے روز سیاسی جماعتیں سڑکوں پر نکل رہی ہوں اور حکومت انتظامی اقدامات کے نام پر سڑکیں بند کرتی ہو وہاں کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو لانا آسان کام نہیں۔ سوچنا ہو گا کہ اس کے اثرات ملک کیلئے کس قدر نقصان دہ ہیں۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت کیلئے یہ حالات عمل انگیز کا کام کرتے ہیں۔