جب شہر بند ہو تو کیا ہوتا ہے؟

ایک بار پھر جڑواں شہروں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ جمعہ کی رات کو جب حکومت نے شہر کو سیل کرنا شروع کیا تو اس وقت مظاہرین کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا مگر حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے بہت پھرتیاں اور ہوشیاریاں دکھائی جا رہی تھیں۔ اس طرح کے اقدامات سے حکومت وقت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جناب! دیکھیں کیسے ہُو کا عالم ہے‘ شہر کے شہر بند کرا دیے گئے ہیں۔ آپ کے خلاف کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ حکمرانوں کو خوف تب ہوتا ہے جب ان کی عوام میں جڑیں نہ ہوں‘ جب وہ غیر قانونی طریقے سے اقتدار پر قابض ہوئے ہوں‘ جمہوری معاشروں میں حکمرانوں کو بھی جمہوری ہونا چاہیے۔ ان کو عوام کی رائے یا ردعمل سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ خوف پھیلانے اور ڈرانے کی روش سراسر غلط ہے۔ اگر موجودہ حکمران اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو انہیں کسی احتجاج‘ دھرنے یا جلسے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ حکمران کو تو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کو دیکھ کر عوام اس پر پھول نچھاور کریں‘ اس کے حق میں دعا کریں۔ خود حکمرانوں کو راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال معلوم کرنا چاہیے‘انہیں انسانی جانوں سے لے کر جانوروں اور پرندوں تک کی جان کا احساس ہونا چاہیے۔ وہ دن رات کام کر کے اپنے عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو عوام کی غربت‘ افلاس‘ دکھ اور تکلیف چین نہ لینے دے۔ وہ سادہ زندگی بسر کریں‘ پروٹوکول سے پرے ہوں۔ جس ہسپتال میں عوام علاج کراتے ہوں‘ وہ بھی اسی میں علاج کرائیں۔ جہاں عوام کے بچے پڑھتے ہوں‘ وہیں حکمرانوں کے بچے پڑھیں‘ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے حکمران عوام کی طاقت سے پریشان رہتے ہیں اور عوام حکمرانوں کی شاہ خرچیوں سے۔ عوام باشعور ہیں‘ اچھا برا سب سمجھتے ہیں۔ نئی نسل پڑھی لکھی ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی خوب جانتی ہے۔ وہ بولنے کا شعور رکھتی ہے اور سوال کرنے کی جرأت بھی۔ اس نسل پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ درپیش معاملات صرف بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں مگر ایسا ممکن نہیں دکھائی دے رہا۔ کوئی بھی فریق لچک دکھانے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی دو‘ قدم پیچھے ہٹے اور کوئی دو قدم آگے بڑھے تاکہ معاملات درست سمت کی طرف گامزن ہو سکیں۔
اس وقت لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی سمیت کئی شہر باقی ملک سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ ان کے اندرونی وبیرونی اور داخلی راستے بند ہیں۔ اگر وفاقی دارالحکومت کی بات کریں تو قرب وجوار کی تمام آبادیاں میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال اور پولی کلینک کا رخ کرتی ہیں۔ ان ہسپتالوں کی ایمرجنسی سب سے بڑی ہے۔ یہاں سب سے بڑا زچہ بچہ کا مرکز ہے‘ برن سنٹر اور ڈائیلسز سنٹر بھی یہیں ہے۔ اگر ان ہسپتالوں تک جانے کا راستہ ہی بند ہو جائے تو کسی نے سوچا ہے کہ کیا ہوگا؟ کتنی جانیں اس سے خطرے میں پڑ جائیں گی۔ جب سارے راستوں پر کنٹینر ہوں گے تو مریض کیسے ہسپتال پہنچیں گے؟ انتظامیہ تو شہر میں خندقیں کھود چکی اور کنٹینرز کو ویلڈنگ کر کے جوڑ چکی ہے۔ اس سے اسلام آباد کے شہریوں کو تو اذیت ہوتی ہے لیکن شہر کی خوبصورتی اور تعمیرات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ نئی بننے والی سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔ منٹوں کا راستہ گھٹنوں پہ محیط ہو گیا ہے‘ فیول کا الگ خرچہ اور ذہنی کوفت الگ۔ ساتھ ہی انتظامیہ کو اچانک یہ بھی خیال آیا کہ سرینا اور ایف ایٹ میں انٹرچینج بنایا جائے۔ عوام کے نصیب میں روز ایک نئی اذیت لکھ دی جاتی ہے۔ ہمیں اتنی سڑکیں‘ پل‘ انڈرپاس اورفلائی اوور کیوں چاہئیں؟ نہ ہی اسلام آباد میں نئے رہائشی سیکٹر بن رہے ہیں نہ ہی یہاں مزید درخت لگائے جا رہے ہیں لیکن سڑکوں پر سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ پیشگوئی کرنا مشکل نہیں کہ جلد ہی وہ وقت بھی آ جائے گا کہ اسلام آباد میں بھی لاہور جیسی سموگ ہوا کرے گی۔ نئی تعمیر شدہ سڑکوں پر اب خندقیں کھودی ہوئی ہیں اور ویلڈنگ کرکے کنٹینرز رکھے ہوئے ہیں۔ کیا وژن ہے‘ بلکہ یہ آپ ہی کا وژن ہے کہ ابھی مظاہرین اپنے گھروں میں بیٹھے ہوں اور دو دن پہلے ہی سارا شہر بند کر دو۔ وہ جگہ ابھی جہاں شنگھائی کانفرنس کیلئے لاکھوں‘ کروڑوں روپے کی سجاوٹ کی گئی تھی‘ اب وہاں بدصورت کنٹینرز اور بلاک پڑے ہیں‘ پھر ان کنٹینرز کو ڈھانپنے کیلئے گرین شیٹ لگائی گئی‘ کیا اس سے شہر کی بدصورتی چھپ جائے گی؟ شہر میں صرف سڑکیں ہی بند نہیں‘ تجارتی مراکز‘ پارکس‘ شادی ہالز اور مارکیاں بھی بند ہیں۔ لوگ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے بچوں کی شادیوں کیلئے ہال بک کراتے ہیں اور ان کو شادی والے دن اچانک یہ پیغام ملتا ہے کہ آئندہ چار سے پانچ دن کیلئے مارکی اور ہال کو بند کرا دیا گیا ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسے میں والدین پر کیا گزرتی ہو گی کہ کارڈ تقسیم ہو چکے ہیں‘ ساری تیاریاں مکمل ہیں‘ اب شادی کیسے ہو گی؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ ملک میں کوئی سسٹم کام ہی نہیں کر رہا اور حکومت اور انتظامیہ کسی کو جواب دہ ہی نہیں۔ اگر آپ سوال کریں گے تو آپ کو عتاب بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔
جب شہر بند ہو تو سب کا نقصان ہوتا ہے مگر دیہاڑی دار طبقہ بری طرح پس کر رہ جاتا ہے۔ اگر ان کو مزدوری نہ ملے تو وہ تو کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ لاک ڈائون اور راستوں کی بندش میں یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ملازمت پیشہ افراد اپنے کام پر نہیں پہنچ پاتے تو ان کی غیرحاضری مارک ہونے سے ان کے پیسے کٹ جاتے ہیں۔ طالبعلم اور اساتذہ ان کے علاوہ ہیں‘ تعلیمی ادارے بند ہونے سے نئی نسل کا حرج ہو رہا ہے مگر کسے پروا ہے۔ تاجر اور خوانچہ فروش الگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس وقت لاری اڈے حتیٰ کہ ریلوے سٹیشن بھی بند ہیں‘ لوگ نہ تو شہر سے باہر جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی شہر کے اندر آ سکتا ہے۔ یوں قید ہونے سے لوگ خوف اور افسردگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر ملک کے یہی حالات رہے تو کوئی ایسی جگہ پر سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟
حکومت عوام کو محصور کرنے کے بعد موبائل اور فون سروس بھی بند کر دیتی ہے‘ جس سے سب سے زیادہ فری لانسرز متاثر ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ لوگوں کیلئے ذریعہ معاش ہے۔ فوڈ ایپس‘ ٹیکسی سروس اور ای کامرس انٹرنیٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ میرے جیسے کالم نویس بھی گھر سے کالم لکھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے دفتر بھیجتے ہیں۔بار بار انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کتنے ہی فری لانسرز اپنے کلائنٹس سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک میں ڈالر کما کر لا رہے ہیں۔ ان کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ایسے ملک نہیں چلتے‘ نہ ہی اس طرح حکومتیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ تمام فریق مل کر بیٹھیں اور معاملات کا بات چیت سے حل نکالیں۔ اپنی اپنی اَنا میں شہریوں کا جینا دوبھر مت کریں۔ شہری اپنے گھروں میں محبوس ہیں اور اس کی وجہ مظاہرین نہیں بلکہ حکومت کا شہر کو لاک کرنا ہے۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ روز ہمارے دارالحکومت کو سیل کر دیا جاتا ہے اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضرورت شہریوں سے چھین لی جاتی ہے۔ احتجاج یا انٹرنیٹ کسی جمہوری حکومت کیلئے خطرہ نہیں ہوتا‘ حکومت کی مایوس کن کارکردگی اس کی سب سے بڑی حریف ہوتی ہے۔ بے جا پابندیاں اور ظالمانہ ٹیکس ووٹروں کو متنفر کرتے ہیں۔ جس طرح سے سیاسی انتقام کو فروغ دیا گیا‘ گھروں پر چھاپے مارے گئے‘ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا‘ اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ جتنا سب کچھ آج کی اپوزیشن کے خلاف ہو رہا ہے‘ کیا آج کے حکمران جب خود اپوزیشن میں ہوں گے تو یہ برداشت کر پائیں گے؟ کیا مسائل کا یہ حل ہے کہ پورا ملک جام کر دیا جائے؟ تین دن سے شہروں کا آپس میں رابطہ منقطع ہے‘ ایسا کب تک چلے گا‘ کسی کو کچھ علم نہیں۔ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھا جائے۔ یوں شہر بند کر دینے سے اقتدار طول نہیں پکڑتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں