کالم نگاری کے بتیس برسوں میں شاید ہی کسی قاری کامکتوب کالم میں نقل کیا ہو۔مگر اب کے‘ ایک ایسا رد عمل موصول ہوا ہے جسے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے تا کہ سِکّے کا دوسرا رُخ بھی دیکھا جا سکے۔یہ ایک پروفیسر صاحب کا ای میل نما خط ہے۔ان سے خط کے مندرجات نقل کرنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دی مگر اس شرط پر کہ ان کا نام اور ان کے تعلیمی ادارے کا نام نہ لکھا جائے۔ اختصار کی خاطر ان کی طویل ای میل کو ایڈٹ کرنا پڑا ہے۔ کالم نگار کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
'' آپ کا انیس نومبر2024ء کا کالم ( سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت ) مایوسی پھیلانے کے علاوہ کسی کام کا نہیں۔ آپ نے تصویر کا ایک رخ دکھا یا ہے۔ آپ نے ملک کی ایسی تصویر کھینچی ہے جو ایک طرف تو حقیقت پسندانہ نہیں اور دوسری طرف بے شمار پاکستانیوں کو اپنے ملک سے بد دل کر سکتی ہے۔ یہ جو ہر طرف مہنگائی کا ہا ہا کار مچا ہوا ہے‘ یہ صرف شور ہے۔ اس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر قیمتیں چڑھی ہیں تو دوسری طرف آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ باورچی اور ڈرائیورجن کی دو تین سال پہلے ماہانہ اجرت پندرہ اور بیس ہزار کے درمیان تھی اب تیس ہزار سے اوپر ہے۔ کھانا اور رہائش اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ ایک اچھا مستری چار پانچ سال پہلے اٹھارہ سو روپے دھیاڑ ( روزانہ ) لے رہا تھا‘ آج اڑھائی ہزار لے رہا ہے۔ مزدور چار پانچ سال پہلے آٹھ سو روپے روزانہ وصول کر رہا تھا۔ آج پندرہ سو سے کم نہیں لیتا۔تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ نجی شعبہ بھی اضافے کرتا ہے۔ حکومت ہر سال سرکاری ملازموں کے مکان کے کرائے کی شرح میں اضافہ کرتی ہے۔ اگر مکانوں کے کرائے بڑھے ہیں تو مکانوں کے مالکوں کو فائدہ ہے اور وہ بھی عوام سے ہیں۔ کرائے اتنے ہی ہیں جتنے لوگوں کی استطاعت میں ہیں۔ کھلی منڈی ہے اور مسابقت ہے۔ اگر کرائے اتنے زیادہ ہوں کہ استطاعت سے باہر ہوں تو مالکوں کا بھی نقصان ہے۔ طلب اور رسد کی قوتیں خود ہی قیمتیں طے کر لیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ مال‘ با زار‘ منڈیاں‘ سب گاہکوں سے کھچا کھچ بھری ہیں۔کون سا مال ہے اور کون سا بازار ہے جہاں رش نہیں۔چلنے کو راستہ نہیں ملتا۔ ریستورانوں میں جائیں تو انتظار کرنا پڑتا ہے۔اور یہ صرف لاہور کراچی اور دیگر بڑے شہروں کی بات نہیں‘ تحصیل لیول کے چھوٹے قصبوں میں بھی یہی حال ہے۔گاؤں والے بھی اب شادیاں قریب کے شادی ہالوں میں کرتے ہیں۔ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ہر روز بڑھتی ہوئی تعداد سے کون سی غربت جھلک رہی ہے؟ سڑکیں چوک ہو گئی ہیں ! چھٹی کے دن پارک اور سیر گاہیں دیکھ لیجیے۔ خاندانوں کے خاندان تفریح کرنے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کس گھر میں ٹی وی نہیں ہے؟ تین تین چار چار سمیں تو صرف مزدوروں اور سبزی فروشوں کے موبائل فونوں میں ہیں۔ سروے کر کے دیکھ لیجیے‘ دس سال پہلے کتنے گھروں میں ایئر کنڈیشنر تھے اور آج کتنے گھروں میں ہیں اور ہر گھر میں کتنے ہیں؟ پہلے دودھ بیچنے والے اور ہاکر سائیکلوں پر ہوتے تھے۔ اب ہر ایک کے پاس موٹر سائیکل ہے اور کتنے ہی دودھ بیچنے والے سوزوکی ڈبوں کے ذریعے اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور یہ جو زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور بن چکی ہیں تو ان میں پلاٹ خریدنے والے اور کوٹھیاں بنانے والے کیانائیجیریا یا بلجیم کے باشندے ہیں؟ یہ سب پاکستانی ہی ہیں۔ جو تین تین پانچ پانچ مرلے کے گھروں میں رہتے تھے اب کنال کنال کے گھروں میں رہتے ہیں۔ بسیں ٹرینیں اور ویگنیں مسافروں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ جو لاکھوں گاڑیاں آن لائن ٹیکسی سروسز کی ہر شہر میں چل رہی ہیں‘ یہ کیسے چل رہی ہیں؟ ان میں وہ لوگ بھی سواری کر رہے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے بسوں پر سواری کرتے تھے۔ہر شہر‘ ہر قصبے کے ہر موڑ پر ریڑھی والے پھل بیچ رہے ہوتے ہیں۔ فروٹ اور سبزی منڈیاں گاہکوں سے چھلک رہی ہیں۔ نئے ہوٹل اور ریستوران بن رہے ہیں۔ مڈل کلاس سے نیچے والے بھی لاکھوں روپے لگا کر سولر بجلی لگوا رہے ہیں۔ یہ جو ملک میں چاروں طرف لا تعداد ٹرالے چل رہے ہیں اور پشاور سے لے کر گلگت تک کروڑوں اربوں کا مال ڈھو رہے ہیں‘ یہ ٹرالے صنعتکاروں اور سیاستدانوں کے نہیں ہیں‘ یہ عام لوگوں کے ہیں۔ میں آپ کو ایک ایسے گاؤں میں لے جا سکتا ہوں جس کے نوے پچانوے فیصد گھر کئی کئی ٹرالوں کے مالک ہیں۔ کئی دہائیاں پہلے اس گاؤں کے پہلے شخص نے ایک ٹرالا قسطوں پر لیا تھا۔ اس کی قسطیں پوری ہوئیں تو اس نے دوسرا خرید لیا۔ اس کی دیکھا دیکھی گاؤں کے باقی افراد نے بھی قسطوں پر ٹرالے لینے شروع کر دئے۔ آج سارا گاؤں ٹرالوں کا مالک ہے اور کئی کئی ٹرالوں کا! اور یہ صرف ایک گاؤں کا حال ہے !! یہ تو تھا مڈل کلاس اور لوئر کلاس کا حال! رہے بالائی طبقے تو ان کے ہمیشہ سے وارے نیارے ہیں۔ان کا معیارِ زندگی پاکستان میں بھی امریکہ اور یورپ جیسا ہے۔ مگر ان کی لالچ کی کوئی حد نہیں۔ یہ اس وجہ سے یورپ اور امریکہ نہیں جا بستے کہ پاکستان کے حالات خراب ہیں۔ یہ اس لیے جاتے ہیں کہ یہ دنیا میں ہر ممکن عیش و عشرت اور ہر نئی سے نئی سہولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سول اور خاکی بیورو کریسی میں سے بھی بہت سوں نے مغربی ملکوں میں محلات خرید کر خاندانوں کو وہاں منتقل کر دیا ہے۔ سیا ستدان‘صنعتکار‘ وڈیرے‘ امیر صحافی صرف شہریت کے لیے بھی باہر جاتے ہیں تا کہ امریکی اور یورپی کہلا سکیں۔
مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کب ایسا شور نہیں تھا؟ ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ مہنگائی نے مار دیا۔ہمیشہ یہی سنا کہ روپے کی قدر کوئی نہیں رہی۔ پندرہ سال پہلے کوئی مکان خریدتا تھا تو کہتا تھا مہنگا ملا ہے۔ اب اسی شخص کو لوگ کہتے ہیں کہ تم نے اچھے وقتوں میں خرید لیا تھا۔ آج تو خریدنا ممکن ہی نہیں۔ جو آج خرید رہا ہے‘ اسے دس سال بعد لوگ کہیں گے کہ اس نے اچھے وقتوں میں لے لیا تھا۔ یہ چکر نہ جانے کب سے چل رہا ہے۔ رہی یہ بات کہ حالات خراب ہیں تو کب نہیں تھے خراب؟ بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں ! مشہور بات ہے کہ فیض صاحب کے دوست پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ کوئی کہتا تھا اس کے اتنے حصے ہو جائیں گے۔ کوئی کہتا تھا یہ ہو جائے گا۔ کوئی کہتا تھا وہ ہو جائے گا۔ فیض صاحب نے کہا کہ خطر ناک بات یہ ہے کہ جیسا ہے‘ ویسا ہی رہے گا۔ ملک کا حال ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ خراب نہ اچھا۔ مگر پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اب سوشل میڈیا نے لوگوں میں احساس پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حالات اب خراب ہو ئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ہم‘ بطور قوم‘ نا شکرے ہیں۔ سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں۔کڑاہیاں‘ چرغے‘ نہاریاں‘ تکے‘ کباب‘ قورمے‘ پلاؤ زردے کھاتے جا رہے ہیں۔ بوٹ بیسن‘ لکشمی چوک‘ پنڈی کا کرتارپورہ‘ہر جگہ پیٹ بھر بھر کر کھا رہے ہیں۔ اپر کلاس والے فائیو سٹار ہوٹلوں میں مزے اُڑا رہے ہیں۔ریستورانوں میں پیسٹریاں اور کیک چل رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ رو بھی رہے ہیں کہ ملک کے حالات خراب ہیں! دوسرے ملکوں میں جا کر فراڈ اور بد معاشیاں بھی کر رہے ہیں۔ ازراہ کرم لکھتے وقت انصاف سے کام لیا کیجیے۔ ملک کے حالات نہیں خراب ! ہم لوگ خود خراب ہیں! ......والسلام