انسانی سمگلنگ کا سانحہ
یونان کے قریب تارکینِ وطن کی ایک کشتی الٹنے سے کم از کم پانچ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک اور بیسیوں لاپتا ہوگئے‘ جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ اب تک ایک پاکستانی کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 47 پاکستانیوں کے ریسکیو کیے جانے کی خبر ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق تاحال کشتی پر سوار تمام لاپتا اور مرنے والے پاکستانیوں کی تصدیق نہیں ہوئی۔ صدرِ مملکت اور وزیراعظم نے یونان کشتی حادثے میں پاکستانی شہریوں کی اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے جبکہ وزیر داخلہ نے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو پانچ روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے کے اس واقعے نے گزشتہ سال جون میں اسی علاقے میں کشتی ڈوبنے سے 700 سے زائد تارکینِ وطن کی ہلاکت کے واقعے کی یاد تازہ کر دی ہے‘ جس میں 350 سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے والے نوجوان یورپ تک رسائی کو اپنے خواب کی تعبیر سمجھتے ہوئے اس سفر کیلئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایران کے سنگلاخ پہاڑوں سے یونان کے سمندروں تک‘ ہر سال اَن گنت نوجوان اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ بحیرہ روم میں ہر سال ایسے سینکڑوں چھوٹے بڑے حادثات پیش آتے ہیں جن میں ہزاروں افراد جان سے چلے جاتے ہیں۔ ان حادثات میں ظاہری وجہ تو موسمی بے رحمی اور گنجائش سے کہیں زیادہ بھری ہوئی کشتیاں ہوتی ہیں‘ مگر حقیقت میں تارکینِ وطن کی موت کے سوداگر وہ انسانی سمگلر ہوتے ہیں جو انہیں خوشنما خواب دکھا کر موت کے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تارکینِ وطن میں سب سے بڑی تعداد پاکستانی نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد حکومت کی جانب انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے مگر پھر یہ کارروائیاں وقت کی گرد تلے دب جاتی ہیں۔ پنجاب اور آزاد کشمیر کے مخصوص اضلاع میں انسانی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہے اور ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 15 ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد حادثات کا شکار ہو جاتی ہے جبکہ ملک کے حصے میں بدنامی الگ سے آتی ہے۔ حالیہ سانحے کی تحقیقات کیلئے جو کمیٹی قائم کی گئی ہے‘ اس کی رپورٹ ماضی کی کمیٹیوں کی رپورٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی جن میں انسانی سمگلنگ کے عالمی نیٹ ورک کو ذمہ دار بتا کر چند مقامی کارندوں کو گرفتار کر کے فائل بند کر دی گئی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی غربت‘ بیروزگاری اور معاشی مواقع کی قلت نوجوان کے ترکِ وطن کی بڑی وجہ ہے۔ انسانی سمگلنگ کے مکمل تدارک کیلئے جہاں انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنا لازم ہے وہیں نوجوانوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے مؤثر اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ ملک کے اندر بہتر روزگار کے وافر مواقع ہی نوجوانوں کو موت کے اس سفر سے با ز رکھ سکتے ہیں۔