16دسمبر‘ واقعات کی نصیحت
16دسمبر کا دن ہماری قومی تاریخ کا حد درجہ المناک دن ہے۔ پاکستان کے ایک بازو کی علیحدگی اور سانحہ اے پی ایس پشاورکا غم بھلایا نہیں جاسکتا‘ نہ اس نقصان کی تلافی ممکن ہے۔ وقت کواچھا مرہم کہا جاتا ہے مگر غیر معمولی گھاؤ بھرجائیں تو بھی گہرے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس کی یادیں ہی وہ نشان ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عوامل ظاہر و باہر ہیں۔ اس وقوعے میں خارجی ہاتھ کو ردنہیں کیا جا سکتا مگر یہ ماننا ہو گا کہ ہماری سیاسی غلطیوں نے ان سازشوں کو پنپنے کا موقع دیا۔ اگر سیاسی رہنماؤں نے تدبر سے کام لیا ہوتا اور قومی معاملات میں خود رائی کے بجائے شراکت پسندی کے جمہوری رویے سے کام لیا ہوتا تو دشمن کی کوئی سازش پاکستان کو توڑ نہیں سکتی تھی۔ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ان واقعات اور تجربات سے سیکھا جائے۔ان میں اہم ترین یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو قومی اتحاد اور یکجہتی کی ہر حال میں کوشش کرنی چاہیے اور سیاسی منافرت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ آج کے حالات میں ہمیں قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے اوراس کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنی زبان و بیان پر توجہ دے۔ایک دوسرے کیلئے نامناسب الفاظ میں گفتگو کرنا سیاسی قائدین کو زیبا نہیں۔ سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ لارڈ پالمرسٹن نے جو بات ملکوں کے باہمی تعلقات کیلئے کہی تھی وہ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کے تعلقات پر بھی صادق آتی ہے کہ نہ کوئی دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ اپنا مفاد۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں جو روابط ہوئے یہ اس کی ایک مثال ہیں‘ یا اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی میثاق کی مثال موجود ہے۔ سیاسی اتحاد کے امکانات یہیں تک محدود نہیں‘ یقینا آج کی متحارب جماعتوں میں بھی کل کلاں قربت کا کوئی امکان پیدا ہو سکتا ہے اس لیے سیاسی اختلاف کو سیاسی پیرائے ہی میں رکھنا مناسب ہے‘ ذاتیات سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔ سیاسی قیادت کی قابلیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے حالات و واقعات کی خوب پرکھ ہونی چاہیے۔ سیاست خلا میں نہیں ہو سکتی اور حالات سدا ایک سے نہیں رہتے‘ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا سیاست کیلئے ناروا اور ملک کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ آج کے حالات کی بات کی جائے تو داخلی اور معاشی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی صورتحال دگرگوں ہے۔ان حالات میں قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اختلافات کو کم سے کم سطح پر لایا جائے اور قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ یہ کام سیاسی قیادت سے بڑھ کر کوئی بھی انجام نہیں دے سکتا۔ آج کے حالات میں اگر سیاسی قیادت اختلافات کو کم کرنے کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا عندیہ دیتی ہے اور خلوصِ دل کے ساتھ اس کیلئے اقدامات کرتی ہے تو یہ ملک کی بہترین خدمت ہو گی۔ سیاسی اختلافات کو ہوا دینا‘ کشتیاں جلانے اور مرنے مارنے کی باتیں‘ یا اپنی اَنا کے کھونٹے سے بندھے رہنے کی نہ کوئی دلیل ہے نہ منطق اور نہ ہی اس میں ملک‘ قوم یا کسی سیاسی جماعت کا فائدہ ہے۔ بد قسمتی سے دس برس قبل جب اے پی ایس پشاور کا سانحہ پیش آیا تو اُس وقت بھی ملک میں سیاسی طوفان برپا تھا‘ مگر اس اندوہناک سانحے کو محسوس کرتے ہوئے سیاسی قائدین نے اتفاق کرنے اور ساتھ دینے کی سوچ اپنا ئی اور ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف بھر پور قومی عزم سامنے آیا۔ آج پھر اسی عزم کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے سائے پھر پھیلتے جارہے ہیں۔ رواں سال ملک عزیز میں دہشت گردی کے واقعات پچھلے کئی سال کے مجموعی واقعات سے زیادہ ہیں۔ معاشی استحکام ہو یا قومی سلامتی کا تحفظ‘ سیاسی ہم آہنگی ہمہ جہت قومی ضرورت ہے۔