سیاسی مذاکرات قومی یکجہتی کا تقاضا
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کے فروغ کیلئے پی ٹی آئی کے ساتھ خلوص سے بات کریں گے۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کے تابع کریں اور ذاتی پسند و ناپسند کو قوم کی خاطر قربان کر دیں۔ سیاسی قیادت میں یہ مثبت سوچ قابلِ ستائش ہے۔ اس سوچ کے ساتھ سیاسی جماعتوں میں بات چیت ہو تو ضرور نتیجہ خیز ہو گی اور قومی یکجہتی کا سبب بنے گی۔ مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘ ضروری ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے بھی اسی گرمجوشی اور خلوص کا اظہار کیا جائے۔ سیاسی اختلاف بذاتِ خود بڑا قومی مسئلہ ہے اور دیگر مسائل کیلئے یہ عمل انگیز کا کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کو مہمیز کرتا ہے اور معاشی مسائل سیاسی ماحول کی مزید خرابی کا سبب بنتے ہیں اور سماجی ناہمواریوں اور محرومیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہموار ترقی اور پائیدار استحکام ملک میں سیاسی استحکام مانگتا ہے۔ وہ ممالک جہاں جمہوری روایت مستحکم ہے‘ وہاں ہو سکتا ہے حکومتوں کے بننے ٹوٹنے کے نظام کا ملک پر زیادہ اثر نہ پڑتا ہو اور چیزیں اپنے حساب سے چلتی رہیں مگر ہمارے جیسے ممالک کیلئے معاشی ترقی مضبوط حکومت اور سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں؛ چنانچہ ہم ایسے حالات کے قطعاً متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ بڑی آبادی اور آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ترقی کے پہیے کی تیز حرکت مانگتی ہے جو کہ سیاسی بے چینی کے ماحول میں ممکن نہیں۔اس لیے سیاسی ہم آہنگی کو قومی ضرورت سمجھ کر آگے بڑھنا ضروری ہے اور پوری کوشش کی جانی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اس بگاڑ سے جلد از جلد جان چھڑا لی جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی رہنما ؤں کی سوچ یہ ہو کہ باہمی بات چیت میں انا اور ہٹ دھرمی کو نہیں آنے دینا۔ دونوں سیاسی فریق مذاکرات کے حوالے سے جن تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں اگر بات چیت کے اگلے مراحل میں بھی یہی جذبہ برقرار رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اس صورتحال سے نہ نکل سکے۔اس حوالے سے وزیر اعظم کے خیالات حوصلہ افزا ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ سیاسی فریقین اس نقشۂ راہ پر آگے بڑھیں گے۔ سیاسی اختلافات‘ اگر نیت ہو تو چند ملاقاتوں میں نمٹائے جا سکتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ دو جنوری کی ملاقات تک فریقین کا یہ جذبہ قائم رہتا ہے یا اس میں کمی واقع ہوتی ہے‘ جو کہ بدقسمتی ہو گی کیونکہ مذاکرات کی شروعات غیر معمولی پیشرفت ہے‘ اگر اس پہلے قدم کے ساتھ ہی پسپائی اختیار کر لی گئی تو بعید نہیں کہ آنے والے وقت میں سیاسی تلخیاں مزید شدت اختیار کر جائیں اور بات چیت کا اعتبار بھی باقی نہ رہے۔ اب تک تو یہ امکان ایک بڑا سہارا ہے کہ اس سے سیاسی اختلاف کم کرنے میں مدد ملے گی اگر یہ ختم ہوا تو سیاسی ماحول کیلئے یہ بڑا خسارہ ہو گا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو اپنا مفاد اسی میں دیکھنا چاہیے کہ باہمی تعلق کو جمہوری اصولوں کے دائرے میں لائیں۔ نہ اپوزیشن آئے روز حکومت کو چتاؤنی دیتی پھرے اور نہ حکومت اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے۔ دونوں کی نظر عوام اور پاکستان کے مفاد پر ہونی چاہیے۔ سیاسی مڈ بھیڑ سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا‘ یہ بات چیت اور آپس کے اچھے تعلق ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو یقینا احساس ہو گا کہ ملک کے اصل مسائل کچھ اور ہیں اور آج کی عالمی و علاقائی صورتحال میں چیلنجز کی صورت کچھ اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔ وہ ممالک جو داخلی سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہیں ان کیلئے ان حالات کا سامنا کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے چیلنجز مہنگائی‘ بیروزگاری‘ قرضوں کا بوجھ‘ مالی وسائل کی قلت‘ سرمایہ کاری میں رکاوٹیں‘ دہشت گردی اور بین الاقوامی طاقتوں کا دباؤ ہے۔قومی اتحاد کے ساتھ ان چیلنجز سے نمٹنا مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب تک اس ذمہ داری کا احساس اجاگر نہیں ہوتا ملکی حالات میں مطلوبہ بہتری نہیں آ سکتی۔