اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

وزیراعظم کا دورۂ بیلاروس اور توقعات

وزیر اعظم شہباز شریف کے دورۂ بیلاروس کے دوران دونوں ملکوں کے مابین دفاع اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات میں تعاون کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ جمعہ کے روز مشترکہ پریس کانفرنس میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے وسیع مواقع موجود ہیں‘ اس دورے سے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں‘ بیلاروس کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس موقع پر فوجی تکنیکی تعاون‘ زرعی مشینری کی مشترکہ تیاری اور باہمی تجارت کے فروغ کے بھی معاہدے ہوئے جبکہ پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بیلا روس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا‘ جس کا لائحہ عمل جلد ترتیب دیا جائے گا۔ پاکستان اور بیلاروس کے مابین دہائیوں پرانے مضبوط سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ پاکستان کا شمار 1991ء میں سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد بیلاروس کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں ہوتا ہے اور اسی وقت سے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے اس خطے سے دوطرفہ بنیادوں پر مضبوط سفارتی‘ تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنے کا آغاز ہو گیا تھا۔ باہمی تعلقات کو وسعت اور گہرائی فراہم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے حکام نے متعدد اعلیٰ سطحی دورے کیے اور باہمی دلچسپی اور علاقائی وعالمی اہمیت کے حامل مسائل پر بھی اعلیٰ سطح کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین متواتر رابطہ رہتا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں بیلاروس کے صدر نے ایک بڑے صنعتی و کاروباری وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران دفاعی وتجارتی تعلقات کو بڑھانے اور باہمی تعاون کے متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔ بیلاروس ٹریکٹر‘ کیمیکل‘ ہیوی مشینری‘ سٹیل اور صنعتی سامان کا ایک بڑا برآمد کنندہ ملک ہے جبکہ پاکستان بیلا روس کو پھل‘ سبزیاں‘خوردنی اشیا‘ ٹیکسٹائل اور طبی آلات برآمد کرتا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے مابین خوشگوار باہمی تعلقات استوار ہیں‘ تجارت وسرمایہ کاری‘ اقتصادی تعاون اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ تین دہائیوں میں درجنوں معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہو چکے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے ادارہ جاتی فریم ورکس بھی موجود ہیں‘ لیکن اب بھی دونوں ملکوں میں باہمی سرمایہ کاری اور دوطرفہ تجارت کا حجم خاصا کم ہے۔ 2023ء میں پاکستان کی بیلاروس کو برآمدات کا حجم تین لاکھ سے کچھ زائد ڈالر تھا جبکہ بیلا روس سے ایک کروڑ نوے لاکھ ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہونے کے طور پر بھی علاقائی تجارت کے فروغ کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود باہمی تجارت کم ترین سطح پر ہے۔ پاکستان بیلاروس سے زرعی مشینری بالخصوص ٹریکٹر سازی کی صنعت میں تعاون کا خواہاں ہے اور بیلاروس کو پاکستانی منرلز‘ زراعت اور صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہے۔ اپنی بھرپور معاشی استعداد کو بروئے کار لانے کے لیے فریقین کو ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو کم سے کم کرنے کے لیے تندہی سے کام کرنا ہوگا اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو مارکیٹ تک رسائی دینے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔وقت آ گیا ہے کہ اب روایتی تعلقات اور مفاہمتی معاہدوں کے دائرے سے نکل کر دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی ودفاعی تعلقات اور صنعتی وپیداواری شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ باہمی دوستی سے پیہم فائدہ اٹھایا جا سکے۔ امید ہے کہ وزیراعظم کا دورۂ بیلاروس دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور شراکت داری کی نئی راہیں کھولنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں