مہنگائی اور عوامی مشکلات
وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق چار دسمبر کو ختم ہونے والے کاروباری ہفتے میں 13 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں سالانہ بنیادوں پر چار فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ جن اشیا کے نرخ بڑھے ان میں خوردنی تیل‘ آٹا‘ ایل پی جی‘ چینی اور انڈے سرفہرست ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارۂ خوراک و زراعت کے مطابق گزشتہ تین ماہ سے عالمی سطح پر غذائی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں مہنگائی میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ یہ تضاد واضح اشارہ ہے کہ خوراک کی مہنگائی کا مسئلہ عالمی نہیں بلکہ مقامی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔

ملک میں نیا کرشنگ سیزن شروع ہونے کے باوجود چینی کی قیمت قابو میں نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ پیداوار یا رسد کا نہیں‘ بلکہ منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور انتظامی کمزوری کا ہے۔ یہی صورتحال دیگر اشیائے ضروریہ کے حوالے سے درپیش ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عوام کی کمزور معاشی سکت کے باعث مہنگائی میں معمولی اضافہ بھی عوام کیلئے معاشی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ جب تک عام آدمی کی قوتِ خرید بحال نہیں ہوتی‘ مہنگائی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ ساتھ ہی انسدادِ گرانی کے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا بھی ناگزیر ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ نئی اصلاحات اور سنجیدہ حکومتی ترجیحات کا متقاضی ہے۔