آبی محرومی
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایشین واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لک 2025ء کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی 1100مکعب میٹر رہ گئی ہے‘ جو قیام پاکستان کے وقت 5600مکعب میٹر تھی۔ گزشتہ روز وزارتِ آبی وسائل نے بھی قومی اسمبلی میں شدید آبی قلت سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق آبادی میں اضافے کے باعث 2030ء میں سالانہ فی کس پانی کی دستیابی مزید کم ہو کر 795 کیوبک میٹر تک رہ جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ دونوں رپورٹیں ملک کو درپیش سنگین آبی بحران کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ملک میں بڑھتی آبی قلت کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم سبب آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے‘ جسکے نتیجے میں پانی کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔

دیگر عوامل میں ناقص واٹر مینجمنٹ‘ کمزور ادارہ جاتی صلاحیت اور آبی وسائل کے شعبے میں ناکافی سرمایہ کاری وغیرہ شامل ہیں۔ پانی کی سب سے زیادہ کھپت زرعی شعبے میں ہوتی ہے۔ اگر بارشی پانی کو ذخیرہ کیا جائے تو ملک کی زرعی ضروریات کا بڑا حصہ بارشی پانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں پانی کے محتاط استعمال کا رجحان نہیں‘ آبی ماہرین کے مطابق سالانہ دستیاب پانی کی 60فیصد مقدار ضائع چلی جاتی ہے۔ سمجھا جائے تو پانی کی قلت کے حوالے سے ہم اب خطرے کے نشان سے زیادہ دور نہیں‘ اسلئے حکومت کو آبی ذخائر کی تعداد میں اضافے اور عوام کو پانی کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔