معاشی پالیسی پر تحفظات
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز لاہور میں تاجر برادری سے ملاقات کے دوران جن خیالات کا اظہار کیا وہ فکر انگیز بھی ہیں اور توجہ کے طالب بھی۔ان کا کہنا تھاکہ حکومت سینٹرلائزیشن پر یقین رکھتی ہے لیکن ہم ڈی سینٹرلائزیشن پر‘ وفاق سیلز ٹیکس آن گڈز کی ذمہ داری صوبوں کو دے‘ ہم وفاق کیلئے ٹیکس اکٹھا کرنے کو تیار ہیں۔ معیشت کے حوالے سے بلاول بھٹو نے جو کچھ کہا ایسے تحفظات کا اظہاربزنس کمیونٹی بھی کر چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے افتتاحی اجلاس میں ٹیکس وصولیوں کا پانچ فیصد صوبوں کو سونپنے کی تجویز زیر غور آئی تو محصولات جمع کرنے والے وفاقی ادارے نے اس کی مخالفت کی جبکہ اس ادارے کی اپنی کارکردگی یہ ہے کہ رواں مالی سال جولائی تا نومبر 5143ارب کے ٹارگٹ میں 412ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ بجٹ میں رواں مالی سال کیلئے ٹیکس ہدف 14305ارب روپے مقرر کیا گیا تھا مگر اہداف کے حصول میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے نظر ثانی شدہ جائزے سے یہ ہدف گھٹ کر 13979ارب روپے ہوگیا ہے۔

رواں ماہ کا ٹیکس ہدف 1760 ارب روپے ہے مگر یہ ہدف بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور 360ارب روپے تک شارٹ فال کا خدشہ ہے۔ لہٰذا وفاق کو محصولات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری صوبوں کو سونپنے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اگر یہ کام صوبوں کو سونپنے سے ٹیکس اہداف بہتر طور پر حاصل کیے جا سکتے ہیں تو پرانے تجربے دہرانے پر اصرار کیوں؟ دوسری جانب اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ہمارا ٹیکس ماڈل کمزور سہاروں پر کھڑا ہے۔ محصولات اور ٹیکسز کی موجودہ شرح غیر معمولی طور پر زیادہ ہے اور زیادہ تر بوجھ کارپوریٹ اور تنخواہ دار طبقات پر لادا گیا ہے۔ اس وقت کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح 29فیصد ہے۔ 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہے۔ ڈیویڈنڈ آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس عائد ہے۔ یعنی بڑے کاروباری اداروں پر مؤثر ٹیکس 60فیصد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بزنس کمیونٹی کی جانب سے برملا یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک کا ماحول کاروبار کیلئے موزوں نہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران کاروباری حجم کو محدود کرنے اور سرمایہ لپیٹنے والے سرمایہ کاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگر تنخواہ دار طبقے کی بات کی جائے تو اس پر بھی انکم ٹیکس اور اضافی سرچارج کی مد میں35 فیصد تک ٹیکس عائد ہے۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہرین میں ٹیکس ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے دیگر ممالک جانے یا فری لانس کام کا رجحان بڑھا ہے‘ نتیجتاً ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرا دکی کمی واقع ہو رہی ہے۔ کاروباری طبقے کو فائلوں کو پہیے لگانے اور این او سیز حاصل کرنے کیلئے جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے‘ ان کا لفظوں میں احاطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور سب سے بڑھ کر آئے روز بدلتی پالیسیاں۔ یہ تمام عوامل کاروبار شکن ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ امر حکومت پر بھی واضح ہو گا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود معاشی پالیسیوں کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج نہیں آ رہے‘ لہٰذا اب پالیسی اور طریقہ عمل بدلنے اور معاشی پالیسیوں میں ترغیب اور نرمی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
کاروباری برادری‘ بزنس کمیونٹی‘ ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے اور دیگر سٹیک ہولڈرز باہمی مشاورت سے ایسی پالیسیاں وضع کر سکتے ہیں جو کارباروی ماحول کی نگہداشت بھی کریں اور سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیں۔ اس سلسلے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اقتصادی اصلاحات میں جتنی تاخیر ہو گی‘ اس کی معاشی قیمت بھی اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔