اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قانون سب کے لیے برابر!

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف تعزیری کارروائی پاک فوج میں احتساب کی روایت‘ قانون کی پاسداری اور ادارہ جاتی نظم ونسق کو مزید مضبوط بنائے گی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے فیض حمید کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے‘ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی‘ اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانے پر 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ یہ سزا پندرہ ماہ کی طویل اور محنت طلب قانونی کارروائی کے بعد تمام الزامات میں قصوروار پانے پر سنائی گئی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملزم کے خلاف سیاسی عناصرکے ساتھ ملی بھگت‘ سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے معاملات پر الگ سے کارروائی جاری ہے۔ قبل ازیں گزشتہ برس مئی میں اس حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں‘ جس پر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا۔ ترجمان عساکرِ پاکستان نے یہ بھی واضح کیا کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے‘ جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور ہمیں اپنے احتساب کے نظام پر فخر ہے۔ سابق چیف آئی ایس آئی کے خلاف کارروائی کا آغاز دسمبر 2023ء میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک ہائوسنگ سکیم کے مقدمے میں عسکری اختیارات کے غلط استعمال کی تصدیق کے بعد کیا گیا تھا‘ جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ قرار دیا گیا تھا کہ سابق فوجی افسر کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات سے چشم پوشی کی گنجائش نہیں ۔ پاک فوج کے دیگر افسران کی طرح یقینا فیض حمید بھی ایک باصلاحیت افسر تھے جو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے سبب اعلیٰ عہدوں تک پہنچے مگر حرصِ جاہ و منصب نے انہیں اپنے فرائض سے غافل کر دیا اور غیر پیشہ ورانہ امور میں انکے دخیل ہونے سے نہ صرف انکے عسکری مقام و مرتبے کو نقصان پہنچا بلکہ اس سے ادارے کی ساکھ کو بھی شدید ٹھیس پہنچی۔ فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے پس پردہ خیال بھی غالباً کسی داخلی تادیبی کارروائی سے محفوظ رہنا تھا مگر نوشتہ تقدیر عدالتِ عظمیٰ میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے موصوف کے خلاف مالی بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات کے ذریعے سامنے آ گیا۔

مذکورہ الزامات چونکہ سروس کنڈکٹ کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتے تھے لہٰذا فوج کی جانب سے داخلی طور پر انکوائری کا آغاز کیا گیا اور بعد ازاں پختہ شواہد پر ملزم کو گرفتار کر کے کیس چلایا گیا۔ گو کہ ابھی ان سزائوں کو کورٹ آف اپیل اور پھر اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا مگر بادی النظر میں ایک سابق اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف اس کارروائی کے کئی اثرات سامنے آ ئیں گے۔ اس اقدام سے یہ تاثر مزید مضبوط ہو گا کہ افواجِ پاکستان اپنے ڈسپلن‘ تشخص اور معیار کے معاملے میں حد درجہ محتاط اور چوکس ہیں اور یہ کہ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ یہ کارروائی دیگر قومی اداروں کیلئے بھی ایک مثال ہونی چاہیے‘ کہ ہر ادارہ اگر اپنے معاملات میں چوکنا ہو تو نہ صرف اداروں کے اندر بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے بلکہ اس سے اداروں کی کارکردگی بھی کئی گنا بڑھ سکتی اور عوام میں انکی ساکھ بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ایک سابق جرنیل‘ جو کور کمانڈر اور ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کی سربراہی کر چکا ہو‘ کے خلاف اس کارروائی کو ملکی تاریخ میں ادارہ جاتی احتساب کی ایک بڑی مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ احتساب کا عمل ہی اداروں کو داخلی سطح پر مضبوط کرتا ہے جس سے شفافیت اور آئین و قانون پر عمل درآمد کو فروغ ملتا ہے۔ یہ کسی ایک نہیں‘ ریاست کے سبھی اداروں کیلئے ایک سبق ہے اور اس بات کا مضبوط اشارہ کہ احتساب کا دائرہ کار ہر سطح تک پھیل سکتا ہے‘ نظم ونسق اور آئین وقانون کی پابندی تمام افراد کیلئے یکساں طور پر لازم ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں