بھارت میں بڑھتی مذہبی منافرت
سوموار کے روز ایک سرکاری تقریب میں بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کے حجاب پر ہاتھ ڈالنا محض ایک انفرادی فعل نہیں بلکہ یہ اُس انتہاپسندی اور فسطائی ذہنیت کا اظہار ہے بھارت میں اقلیتی برادریاں جس کا ہدف بنی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں اس مذموم حرکت کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور اسے مذہبی آزادی اور شخصی انتخاب پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس مکروہ فعل کو عورت کی عزت اور شناخت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی خاتون کے لباس یا مذہبی علامت پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ بھارت میں ریاستی سطح پر مذہبی امتیازی سلوک اور بطورِ خاص مسلمانوں کے حقوق سلب کرنے کے واقعات اب روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں بھی ہندوتوا کے فاشزم کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔ بابری مسجد کیس اس کی ایک بڑی مثال ہے۔

ہندوتوا نظریات اور بھارتیہ جنتا پارٹی سرکار کی انتہاپسند پالیسیوں نے محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی ہی کو مجروح نہیں کیا بلکہ اس نے سماج میں مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کے ایسے بیج بوئے ہیں‘ جو خاردار فصل کی صورت میں اگلی کئی دہائیوں تک دنیا کے امن وسلامتی کو وقفِ اضطراب رکھیں گے۔ بھارت میں اس وقت 20کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں‘ اور یہ تعداد دنیا کے 188ممالک کی کُل آبادی سے زیادہ ہے۔ اگر بھارت کی مسلم آبادی کو ایک علیحدہ ملک تصور کیا جائے تو یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہو گا مگر ہندوتوا پالیسیوں کے زیر اثر بھارت کے کروڑوں مسلمان مذہبی آزادی کے حوالے سے شدید خطرات سے دوچار ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ 2025ء میں بھارت کو مسلسل چھٹے سال مذہبی آزادی کے حوالے سے خصوصی تشویش والے ملک کے طور پر نامزد کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی قوانین میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر‘ ہجومی تشدد اور جائیداد کی مسماری جیسے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
وقف املاک‘ نئے شہریت قوانین اور تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے سخت قوانین کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی قانون سازی کی رفتار میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جو اقلیتوں‘ بالخصوص مسیحیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنائے۔ دو برس قبل نسل کشی کے خطرات سے آگاہ کرنے والے ایک عالمی ادارے ’جینوسائڈ واچ‘ کے بانی سربراہ گریگوری سٹینٹن نے بھی بھارت کو مسلمانوں کیلئے خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت مسلم نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں ہے‘ یعنی بھارت میں مسلمانوں کا مکمل صفایا محض ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے جنونیوں کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمان بھارت میں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
اس وقت دنیا مذہبی منافرت اور اس سے منسلک دہشت گردی کے جو بڑھتے واقعات مشاہدہ کر رہی ہے‘ اس کے پیچھے ایسی ہی فسطائی سوچ ہے۔ مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی خواہ سڈنی میں ہو‘ غزہ میں یا بھارت میں‘ اس کی بھرپور مذمت اور عالمی سطح پر اس کی روک تھام کیلئے اقدامات عالمی برادری کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانا نہ صرف ایک ہمسایے بلکہ لیاقت نہرو پیکٹ کے تحت بھی پاکستان کا قانونی حق ہے۔اس سلسلے میں حکومتی سطح پر سفارتی کوششوں کو مزید تیز کیا جانا چاہیے اور دنیا کو یہ باور کرانا چاہیے کہ اگر بھارت میں ہندوتوا کی دہشت گردی اور مذہبی منافرت کو لگام نہ ڈالی گئی تو پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔