برآمدات پر مبنی معیشت اور تقاضے
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معاشی استحکام‘ اصلاحات اور پالیسیوں میں تسلسل سے معیشت پہ اعتماد بحال ہوا ہے‘اب حکومت برآمدات اور پیداواری صلاحیت پر مبنی ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔وزیر خزانہ کے اس بیان سے اس حد تک تو اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ اس حکومت کی کوشش سے ملک معاشی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل آیا مگر معاشی استحکام کی منزل پا لینے کے دعوے ابھی قبل از وقت معلوم ہوتے ہیں۔ برآمدی اشاریوں کو دیکھا جائے تو یہ صورتحا ل بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔حال ہی میں ورلڈ بینک نے ’پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ‘ میں برآمدات کی کم ہوتی نمو پر تشویش کا اظہار کیا۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2000ء سے پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے مسلسل کم ہوتی گئیں اور 1990ء کی دہائی میں اوسطاً 16 فیصد سے گر کر 2024ء میں تقریباً 10.4 فیصد رہ گئیں۔ برآمدات‘ جو ملکی اقتصادیات کیلئے رگِ جاں کی حیثیت رکھتی ہیں‘ میں بڑھوتری اور تسلسل کے بغیر معاشی استحکام کا دعویٰ ادھورا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی برآمدات ماہانہ اور سالانہ‘ ہر دو بنیادوں پر غیر یقینی اور عدم تسلسل کا شکار ہیں۔ رواں مالی سال کا جائزہ لیا جائے تو وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران برآمدات کا کُل حجم 12 ارب 84 کروڑ ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 13 ارب 72 کروڑ ڈالر تھا۔ یعنی 87 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمی آئی۔ ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو نومبر میں برآمدات اکتوبر کے مقابلے میں 45 کروڑ ڈالر کم رہیں۔ اکتوبر میں برآمدی حجم دو ارب 84 کروڑ ڈالر تھا جو نومبر میں کم ہوکر دو ارب 39 کروڑ ڈالر ہو گیا۔ اگر بڑے برآمدی شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو ٹیکسٹائل ہمارا سب سے بڑا ایکسپورٹ سیکٹر ہے ‘لیکن رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم سات ارب 81 کروڑ ڈالر رہا‘ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں محض 2.7 فیصد زیادہ ہے‘ تاہم قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں ماہانہ بنیادوں پر تین فیصد تک کمی دیکھی گئی‘ جبکہ نان ٹیکسٹائل برآمدات میں بھی 14 فیصد سے زائد گراوٹ آئی۔
برآمدات کے عدم تسلسل میں چاول کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت میں چاول کی ایکسپورٹ پر پابندی لگنے سے پاکستان کیلئے عالمی مارکیٹ میں نئے مواقع پیدا ہوئے‘ پاکستان نے ان مواقع سے فائدہ اٹھایا اور 19 ماہ تک چاول کی برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا مگر بھارت کے عالمی مارکیٹ میں واپس آتے ہی پاکستان کی چاول برآمدات پر منفی اثر پڑا۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران چاول کی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 40 فیصد سے زائد کمی آئی۔ اگر آئی ٹی سیکٹر کی بات کی جائے تو یہ واحد شعبہ ہے جہاں برآمدات میں نمو کا تسلسل نظر آتا ہے۔ ابتدائی پانچ ماہ میں آئی ٹی برآمدات میں 19 فیصد اضافہ ہوا اور امید ہے کہ مالی سال کے اختتام تک یہ چار ارب ڈالر کا ہدف عبور کر لیں گی۔ گزشتہ سال دسمبر میں اڑان پاکستان پروگرام کے تحت 2030ء تک برآمدات 60 ارب ڈالر تک لیجانے کا ہدف مقرر کیا تھا اور ہر سال اس میں پانچ ارب ڈالر اضافے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
کیا اس سال ہم پانچ ارب ڈالر اضافے کا ہدف حاصل کر سکے ہیں؟ ہرگز نہیں! یقینا برآمدات پر مبنی ترقی کا ماڈل ہی پائیدار اور مضبوط ترقی کا ماڈل ہے مگر اس کیلئے محض اہداف مقرر کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ پالیسی سپورٹ‘ سستی توانائی اور عالمی معیار کے مطابق پیداوار جیسے بنیادی عوامل پر بھی سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ اہداف کا جائزہ لینا ہو گا اور جو رکاوٹیں درپیش ہوں ان کا ازالہ کرنا ہو گا۔ اسی صورت میں برآمدی تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ نیز بدلتے دور میں پاکستان محض ٹیکسٹائل یا فوڈ آئٹمز کے ذریعے برآمدات کے شعبے میں لمبی جست نہیں بھر سکتا‘ اس کیلئے آئی ٹی‘ ہیوی انڈسٹری‘ ویلیو ایڈڈ مصنوعات اور دیگر شعبوں پر بھی توجہ دینا ہو گی۔