نصیر الدین شاہ ہندو انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ گئے
نئی دہلی (نیوز مانیٹرنگ )بھارت کے سینئر اداکار نصیر الدین شاہ ہندو انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ گئے ۔ انہوں نے ایک بھارتی اخبار میں مضمون لکھا کہ انہیں نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، لیکن اسکی کوئی پروا نہیں ۔
نصیر الدین شاہ نے لکھا کہ یہاں جذباتیت، نفرت، اور حالیہ دنوں میں جنگی جنون کی لہر اٹھی ہے ، اُس نے ان لوگوں کو ضرور شہ دی ہے جو پہلے اپنے دل کے تعصب کو چھپاتے تھے ، اب کھلے عام بولنے لگے ہیں ۔ ہندی فلموں پر تنقید کرنا احسان فراموشی سمجھا جاتا ہے ، بھائی چارے کی اپیل ,,غداری,,، اور ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے پر شکایت کرو تو کہا جاتا ہے کہ ،،کہیں اور چلے جاؤ،،۔کسی فنکار کی حمایت میں آواز بلند کرنا ,,ملک دشمنی,, کے مترادف قرار پاتا ہے ۔ آج ہر تنقید کو ,,اینٹی نیشنل,, بنا دیا گیا ہے ۔ٹی وی سیریل ,,انُوپما,, کے مرکزی اداکار طنزیہ سوال کرتے ہیں کہ,,کیا پاکستان ہمارے فنکاروں کو وہاں پرفارم کرنے دیتا ہے ؟,, - حالانکہ انہیں علم نہیں کہ نہ صرف وہاں ہمیں اجازت دی جاتی ہے ، بلکہ ہمیں عزت بھی دی جاتی ہے ۔تو کیا جو لوگ نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، یا فریدہ خانم کو سنتے ہیں، وہ سب غدار ہیں؟ظاہر ہے ، صرف وزیراعظم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سرحد پار جا کر اپنے ہم منصب کو گلے لگا سکتے ہیں۔ عام شہری اگر ایسا سوچے تو وہ ,,گناہ,, بن جاتا ہے ۔ لیجنڈ آرٹسٹ نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمیں واقعی کوئی فائدہ ہے اس بات میں کہ ہم ہر پاکستانی شہری سے نفرت کریں صرف اس لیے کہ ان کی حکومت یا فوج کچھ کرتی ہے ؟ یا یہ صرف ہمارے اندر کے کسی وحشی جذبے کو تسکین دینے کا بہانہ ہے ؟جارج اورویل کی کتاب 1984 میں ,,روز ایک دو منٹ نفرت,, کا تصور تھا ، سب کو اپنی ساری سرگرمیاں روک کر حزبِ اختلاف کے لیڈر کو گالیاں دینا ہوتی تھیں۔
آج تو یہ نفرت چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے اور صرف لیڈر کے خلاف نہیں، ہر اُس آواز کے خلاف جو ذرا سا اختلاف کرے ۔انہوں نے لکھا کہ میں ایک آسان ہدف ہوں ان قوم پرستوں اور تنخواہ دار ٹرولز کا ، جو واقعی املا اور گرائمر کے معاملے میں مدد کے محتاج ہیں ، صرف اس لیے کہ مجھے اپنے جذبات یا وطن سے محبت جتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔مجھے معلوم ہے میں کیا محسوس کرتا ہوں، مجھے اپنی سوچ پر یقین ہے ، اور وہ کسی دوسرے کی ملکیت نہیں۔ اگر میری فیس بک پوسٹ کو، جو حذف کی گئی ہے مگر میں نے نہیں کی، دلجیت دوسانجھ کی حمایت میں دی گئی ایک وضاحت سمجھا جائے ، تو ٹھیک ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مجھے کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے جو کہنا تھا، کہہ دیا اور اپنے ہر لفظ پر قائم ہوں۔ فلمی دنیا کی خاموشی سے مجھے کوئی مایوسی نہیں ہوئی ، مجھے ویسے بھی کسی حمایت کی توقع نہ تھی۔ ان کے پاس یا تو کھونے کو بہت کچھ ہے ، یا پھر وہ مجھ سے متفق ہی نہیں۔اور اُن ٹرولز کے لیے ، خاص طور پر اُس کے لیے جس نے لکھا: ,,پاکستان نہیں تو قبرستان,,، میرے پاس صرف جگر مراد آبادی کا شعر :,,مجھے دے نہ غیظ میں دھمکیاں، گریں لاکھ بار یہ بجلیاں میری سلطنت یہی آشیاں، میری ملکیت یہی چار پر!,,