تازہ اسپیشل فیچر

عظیم بھائی کی عظیم بہن۔۔ محترمہ فاطمہ جناح

پاکستان

قائد اعظم محمد علی جناح کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن فاطمہ جناح تھیں ،آپ کا پیدائشی نام فاطمہ علی جناح تھا۔ آپ کی پیدائش کے موقع پر قائد اعظمؒ لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 ء کوکراچی میں پیدا ہوئیں،جب2سال ہوئی تو والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ۔17 اپریل 1902 ء کو والد کا بھی انتقال ہو گیا تو بڑے بھائی محمد علی جناح ؒنے گھر کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کو اچھا نہ سمجھا جاتا تھا مگر بھائی نے آپ کو سکول میں داخل کروا دیا جہاں سے آپ نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا پھر 1913 ء میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1919 ء میں کلکتہ میں ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لیا اور 1922 ء میں ڈگری حاصل کی اور ممبئی میں پریکٹس شروع کر دی۔

قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی شریک حیات کی وفات کے بعد20 فروری 1929 ء کو آپ اپنا کلینک چھوڑ کران کے گھر میں منتقل ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ نے ہی تمام عمر قائد اعظمؒ کا ہر طرح سے خیال رکھا ۔محترمہ فاطمہ جناح ایک عہد ساز شخصیت تھیں جنہوں نے پہلی مرتبہ بیسویں صدی کی خواتین کیلئے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔ آپ قوم کیلئے بحیثیت ماں کا درجہ رکھتی تھیں اسی لیے مادر ملت کا خطاب ملا ، آپ کے قوم پر اس قدر احسانات ہیں کہ شمار نہیں کیا جاسکتا، بظاہر ایک کمزور سی خاموش طبع خاتون مگر بہادر اتنی کہ بر صغیر کے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جنا حؒ کے تمام حوصلے اور سیاسی طاقت آپ ہی کی مرہون منت تھی اور دور اندیشی ایسی کہ قائد اعظمؒ نے خود اعتراف کیا کہ میں کوئی بھی سیاسی حتمی فیصلہ اپنی بہن فاطمہ جناح کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ  ہر کامیاب اور عظیم شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘اور اس مقولے کو محترمہ فاطمہ جناح نے ازلی زندگی بخشی۔ آپ نے آخری دنوں تک قائد اعظمؒ کا ساتھ دیا۔قائد اعظمؒ نے خود فرمایا  فاطمہ جناح میرے لئے حوصلے کا ذریعہ ہیں، ان دنوں جب مجھے خدشہ تھا کہ برطانیہ حکومت مجھے قید کر لے گی تو فاطمہ نے ہی مجھے حوصلہ دیا۔‘‘

پاکستان کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا نام ہمیشہ زندہ و جاویدرہے گا،تو مادر ِملت محترمہ فاطمہ جناح کا نام بھی لیا جاتا رہے گا ۔اگر ہم مادرِ ملت کی حیات کی خوبیاں اور ان کی ذاتی خصوصیات شمار کرنا چاہیں تو اس کیلئے ہمیں قائد کی زندگی کو دیکھنا ہو گا، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی عظیم کام کیلئے انتھک محنت ، کوشش اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تمام چیزیں اسی وقت میسر آتی ہیں جب انسان اپنے اردگرد کے ماحول میں پُرسکون اوریکسوئی سے رہ رہا ہو ، چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اور بڑے بڑے مسائل اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں تو پھر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب ان سب چیزوں کو سنبھالنے والا کوئی ہو۔

اگر ہم قائد اعظمؒ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو جب ان کی سیاسی زندگی انتہائی مصروف اور اہم موڑ پر تھی تو محترمہ فاطمہ جناح ان کیلئے ایک عظیم سہارا بن کر سامنے آجاتی تھیں اور قائد اعظمؒ کے تمام بوجھ کو اپنے ناتواں کندھوںپر اٹھا لیتی تھیں، صرف یہ ہی نہیں ان کی دیکھ بھال ایک ماں کی طرح کرتی تھیں۔ ان کے مسائل کو گہرائی اور دور اندیشی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے مفید مشورے دیتی تھیں ، وقت اور مصروفیات کا بہترین شیڈول بناتی تھیں اور جہاں کہیں قائد اعظمؒ پریشان نظر آتے تومحترمہ فاطمہ جناح شانہ بشانہ آ کھڑی ہوتی تھیں۔ پھر تمام مسائل مشکلات و تکالیف ایسے حل ہوتے جیسے کبھی تھے ہی نہیں ۔
آپؒنے شبانہ روز قائداعظم ؒکی خدمت کی یہ خدمت در حقیقت ایک بھائی کی خدمت نہیں بلکہ ایک عظیم قومی رہنما کی خدمت تھی، آپ ؒیہ جانتی تھیں کہ اگر قائد اعظمؒ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کامیابی اصل میں قوم کی ہے، امت مسلمہ کی ہے، قائد اعظمؒ اگر برصغیر کے عظیم رہنما تھے تو محترمہ فاطمہ جناح عظیم خاتون رہنما تھیں جن میں شخصی خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں ہی مگر سادہ اتنی تھیں کہ کبھی غرور و تکبر ، دکھاوے اور احساس برتری کی جھلک تک آپؒ کی زندگی میں نظر نہیں آتی تھی، اسی خدمت نے قائد اعظم ؒکو ایک غیر مرئی طاقت بخشی اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی عظیم مملکت کا معجزہ دونوں بہن بھائیوں کے نام کیا، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قائد اعظمؒ کی زندگی میں نہایت اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔

قائد اعظمؒ کے بعد اگر کسی ایسی شخصیت کا ذکر مقصود ہو جن کی عدم موجودگی میں پاکستان کا قیام ناممکن ہو تو پھرمحترمہ فاطمہ جناح کا ہی نام آئے گا۔ آپؒ نے قائد اعظمؒ کے ساتھ اپنی طویل رفاقت میں برادرانہ محبت ، خلوص، نگرانی، تیمارداری اور مشاورت کا حق ادا کیا۔آپؒ کا بھائی کے ساتھ یہ تعلق ان کی وفات 11 ستمبر 1948 ء تک جاری رہا ۔ آپؒنے پاکستان کیلئے سیاسی خدمات کیساتھ ساتھ سماجی و فلاحی کاموں کیلئے بھی خود کو وقف کیے رکھا۔آپ کی کوششوں سے ہی کراچی میں آپ کے نام پر خاتون پاکستان سکول کی بنیاد رکھی گئی جو 1963 ء میں کالج بن گیا ۔

مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اردو زبان کو پاکستان کی سرکاری، عدالتی ، عوامی زبان بنانے کی خواہاں تھیں، آپؒاپنی اکثر تقاریر میں قوم سے اردو لکھنے ،بولنے،پڑھنے پر زور دیتی تھیں۔اپنی طویل جد وجہد کیساتھ پاکستان کیلئے سب کچھ قربان کر دینے والی یہ عظیم ہستی 9 جولائی 1967 ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئی۔ آپ ؒکا مزار قائد اعظمؒ کے مزار کے احاطے میں ہے ۔ آپؒقائد اعظمؒ محمد علی جناح کی بہن ہونے کیساتھ ساتھ ان کی فکری وارث بھی تھیں ۔قائد اعظمؒ کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمراہ مؤثر طور پر 19 سال رہیں یعنی 1929 ء سے 1948 ء تک آپ ؒ نے دن رات قائد اعطم ؒ اور پاکستان کیلئے کام کیا اور آخری دم تک ملک و قوم کی خدمت کی۔

مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا 31 جولائی کویوم پیدائش نہایت احترام سے منایا جاتا ہے ۔آپؒ نے پاکستان کے بارے میں جن خطرات کی بار ہا نشاندہی کی تھی ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔غیر ملکی طاقتوں کی بڑھتی مداخلت ،بیرونی قرضوں کا ناقابل برداشت دبائو،غربت اور معاشی ناہمواریوں میں خطرناک اضافے ، ناخواندگی اور سائنٹفک تعلیم کے بارے میں مجرمانہ خاموشی ،نصاب میں اسلامی اقدار اور خاص کر قرآنی تعلیمات کا فقدان ،خارجہ پالیسی کے غیر متوازن روئیے ۔ان سب خدشات کا اظہار مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ 1965ء میں اپنی تقاریر میں کرتی رہی ہیں ۔آج اُن کی کہی سب باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں ۔