تازہ اسپیشل فیچر

شہنشاہ صلح و امن…. حضرت امام حسنؓ

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) 28 صفر المظفر 50ھ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نواسہ رسولؐ لختِ جگر حضرت علیؓ و بتول ؓخلیفۃ المسلمین حضرت امام حسن مجتبیٰؓ درجۂ شہادت پر فائز ہوئے، نواسہ رسول ﷺ جگر گوشہ بتول سیدنا حضرت امام حسنؓ رحمت عالم ﷺ کے لاڈلے نواسے، خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کے لخت جگر خاتون جنت سیدہ حضرت بی بی فاطمہؓ کے نورعین اور شہید کربلا سیدنا امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے برادر اکبر ہیں۔

حضرت امام حسنؓ سر سے سینہ تک حضوراکرم ﷺ سے مشابہ تھے، آپؓ کا لقب شبیہ رسول تھا اور یہ مشابہت محض ظاہری اعضا و جوارح تک محدود نہ تھی بلکہ آپؓ کی ذات باطنی اور معنوی لحاظ سے بھی اسوہ نبویﷺ کا نمونہ تھی، یوں تو آپؓ تمام مکارم اخلاق کا پیکر مجسم تھے لیکن زہد و رع دنیاوی جاہ و چشم سے بے نیازی اور بے تعلقی آپؓ کا ایسا خاص اور امتیازی وصف تھا جس میں آپؓ کا کوئی حریف نہیں۔

سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ اپنے دونوں نواسوں کو دل کی گہرائیوں سے پیار کیا کرتے تھے اور آپ کے نواسے بھی ہر لحظہ آپ کی خدمت اقدس میں رہا کرتے اور آپ ﷺ سے والہانہ محبت فرماتے، حضرت امام حسنؓ کی پرورش سرکار دو عالم ﷺ نے بڑی ناز و محبت سے کی، کبھی آغوش محبت و شفقت میں لیے ہوئے نکلتے اور کبھی دوشِ مبارک پر سوار کئے ہوئے۔

حضرت امام حسنؓ نہایت ذہین تھے اور 7 سال کی عمر میں ہر وہ وحی یاد فرما لیتے جو اپنے نانا جان سے سنتے، حضرت امام حسنؓ کی ولادت باسعادت 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضوراکرمﷺ نے آپؓ کا نام حسن رکھا اور ساتویں روز آپؓ کا عقیقہ فرمایا، آپؓ کے سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔

امام احمد بن حنبلؒ روایت کرتے ہیں کہ: جناب سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے ہاں جب سیدنا امام حسین ؓ کی ولادت ہوئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں اپنے بیٹے کا عقیقہ نہ کروں؟ ارشاد فرمایا: نہیں! پہلے ان کے بال اترواؤ اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صفہ والوں اور دوسرے مسکینوں پر صدقہ کرو (مسند احمدبن حنبل :27253)۔

حضرت عمران بن سلیمانؒ بیان کرتے ہیں کہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنتی ناموں میں سے ہیں، دور جاہلیت میں یہ نام کسی کے بھی نہ تھے۔ (اسدالغابہ، ج2، ص24)

یوں تو حضرت حسنینؓ کی ذات گرامی مجمع الفضائل تھی، لیکن آنحضرتﷺ کی غیر معمولی محبت و شفقت آپؓ کی فضیلت کا نمایاں باب ہے، حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ بازار سے لوٹا تو آپﷺ بی بی فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا، بچے کہاں ہیں؟ تھوڑی دیر میں دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور رسول اللہﷺ سے چمٹ گئے، آپﷺ نے فرمایا، خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں اس لیے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کے محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ ۔

اسی طرح نبی کریمﷺ عبادت کے موقع پر بھی حسنؓ و حسینؓ کو دیکھ کر ضبط نہ کر سکتے تھے، حضرت عبد اللہ بن شدادؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز کیلئے ہمارے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپﷺ حضرت حسنؓ یا حضرت حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے، پھر نبی کریمﷺ آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھا دیا، پھر آپﷺ نماز ادا فرمانے لگے۔ آپ ﷺ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں: میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ نبی کریم ﷺ سجدہ میں ہیں اور شہزادے آپ ﷺ کی پشت انور پر ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔

جب رسول اللہﷺ نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! آپﷺ نے نماز میں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا یا آپﷺ پر وحی الہٰی کا نزول ہو رہا ہے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہوگیا تھا، جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا(سنن نسائی: 1129، کنز العمال:34380)۔

حضرت عبداللہ بن بریدہؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہؓ کو فرماتے ہوئے سُنا نبی اکرمﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسنین کریمینؓ سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آ رہے تھے تو رسول اللہﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے امام حسنؓ و امام حسینؓ کو گود میں اٹھا لیا پھر (منبر مقدس پر رونق افروز ہو کر) ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا، تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے آ رہے تھے، لڑکھڑا رہے تھے، مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کر کے انہیں اٹھا لیا ہے۔ (جامع ترمذی ،حدیث نمبر3707)

آنحضرتﷺ نماز پڑھتے وقت رکوع میں جاتے تو حسنؓ و حسینؓ دونوں ٹانگوں کے اندر گھس جاتے، آپﷺ سجدہ میں ہوتے تو دونوں پشت مبارک پر بیٹھ جاتے، آپ ﷺاس وقت تک سجدہ سے سر نہ اٹھاتے جب تک دونوں خود سے نہ اتر جاتے، حسن ؓ و حسینؓ کو آپ ﷺاپنے جنت کے گل خندان فرماتے تھے، ابن عمر ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ حسن ؓو حسینؓ میرے جنت کے دو پھول ہیں، حسنؓ وحسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

حضرت امام حسنؓ اپنے نانا جان اور والدین کی طرح سخی اور خدا ترس مشہور تھے، کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے، حضرت امام حسنؓ کا دستر خوان بڑا وسیع تھا، آپ کی مہمان نوازی کا شہرہ دور دور تک تھا، جبکہ آپ خود فاقے سے ہوتے۔

ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا آپؓ نے اسے 50 ہزار درہم عطا فرما دیئے، اسی طرح آپؓ کی خدمت اقدس میں ایک مقروض شخص آیا اور عرض کی حضور ایک ہزار کا مقروض ہوں، آپ نے اسے 10 ہزار درہم عطا فرما دیئے، لوگوں نے آپؓ سے عرض کیا کہ حضور، باوجود اس کے کہ آپؓ خود فاقہ سے ہوتے ہیں لیکن سائل کو خالی نہیں جانے دیتے تو آپؓ نے فرمایا کہ میں خود درگاہ الہٰی کا سائل ہوں، جو مجھے دیتا ہے اور جو میرا سائل بن کر آتا ہے میں اسے دیتا ہوں، اگر میں اپنے سائل کو لوٹا دوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا رب مجھے بھی خالی نہ لوٹا دے، آپؓ سخی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے زاہدو عابد بھی تھے۔

حضرت حسنؓ نے ساری عمر نہایت فراغت کے ساتھ بسر کی، حضرت عمرؓ نے جب صحابہ کرامؓ کے وظائف مقرر کئے اور حضرت علیؓ کا 5 ہزار ماہوار مقرر کیا تو آپ ؓ کے ساتھ حضرت حسنؓ کا بھی جو اگرچہ اس زمرہ میں نہ آتے تھے، رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر فرمایا جو انہیں برابر ملتا رہا، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بھی یہ وظائف برابر جاری رہے، آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسنؓ کی عمر 8 سال تھی۔

ظاہر ہے کہ اتنی سی عمر میں براہِ راست فیضانِ نبوی سے زیادہ بہرہ یاب ہونے کا کیا موقع مل سکتا ہے تاہم آپ جس خانوادہ کے چشم وچراغ تھے اور جس باپ کے آغوش میں تربیت پائی تھی وہ علوم کا سرچشمہ اورعلم وحمل کا مجمع البحرین تھا اس لیے قدرتاً اس آفتابِ علم کے پرتو سے حسنؓ بھی مستفید ہوئے، چنانچہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد مدینہ میں جو جماعت علم وافتا کے منصب پر فائز تھی اس میں ایک آپؓ کی ذاتِ گرامی بھی تھی البتہ آپؓ کے فتاویٰ کی تعداد بہت کم ہے، آپؓ کی مرویات کی تعداد کل 13 ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تر حضرت علیؓ اور ہند سے مروی ہیں۔

خوف و خشیت کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت امام حسنؓ وضو فرماتے تو آپؓ کے بدن کا جوڑ جوڑ خوفِ الٰہی سے کانپنے لگتا، آپ ؓ نے پچیس حج پیدل ادا فرمائے، لوگوں نے عرض کیا، حضور سواریاں ہوتے ہوئے آپؓ پیدل کیوں تشریف لے جاتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا کہ مجھے اپنے مولیٰ کے گھر کی طرف سوار ہو کر جاتے ہوئے شرم آتی ہے، حتیٰ کہ پیدل چلنے سے آپ کے پاؤں مبارک پر ورم تک آجاتا۔

50ھ میں کسی نے آپ کو زہر دے دیا، قلب وجگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گرنے لگے، جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور زندگی سے مایوس ہوگئے تو حضرت حسینؓ کو بلا کر ان سے واقعہ بیان کیا، انہوں نے زہر دینے والے کا نام پوچھا، فرمایا: نام پوچھ کر کیا کروگے؟ عرض کیا قتل کروں گا، فرمایا: اگر میرا خیال صحیح ہے تو خدا بہتر بدلہ لینے والا ہے اور اگر غلط ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے اور زہر دینے والے کا نام بتانے سے انکار کر دیا، 50 ہجری میں 47 یا 48 برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا، آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

اللہ کے محبوب کریمﷺ کو اپنے دونوں نواسوں سیدنا امام حسنؓ اور سیدنا حضرت امام حسینؓ سے بہت محبت تھی، آپﷺ نے ان دونوں شہزادوں کی شان کو خود بیان فرمایا تاکہ امت کو اندازہ ہو سکے کہ یہ دونوں بھائی کس عظمت و شان مقام و مرتبہ کے ہیں، کئی احادیث ان شہزادگان رسول کی شان میں ہیں۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت امام حَسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش کے ساتویں دن بکریاں عَقیقہ میں ذَبح فرمائیں۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث: 7963)

نبی کریمﷺ نے حسنین کریمینؓ سے متعلق ارشاد فرمایا ’’یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے (جامع ترمذی: 4138)۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔( ابن ماجہ: 148)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خداﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ: حسنؓ و حسینؓ سے، چنانچہ رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپﷺ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے (ترمذی: 3772)۔

حضرت حسینؓ اپنے نانا کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے، رسولِ خداﷺ کی اپنے ان لاڈلوں سے اْلفت و موانست اور لاڈ بے مثال ہے، اللہ ہمیں اہل بیت کی سچی محبت نصیب فرمائے اور دشمنان اہل بیت کو نیست و نابود فرمائے، نواسہ رسول کی عظمت و شان کے صدقے پوری امت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد قائم فرمائے، آمین۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کے لئے اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں