تازہ اسپیشل فیچر

آئین پاکستان کی ترامیم: 1974ء تا 2024ء

لاہور: (دنیا نیوز) آئین پاکستان میں اب تک 25 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں، غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔

پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جبکہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی، آئین پاکستان کی آٹھویں اور سترہویں ترمیم سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہے، ہر دو ترامیم کا تعلق غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا،

آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جبکہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا، آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کیلئے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کیلئے باعث تقویت مانا جاتا ہے،چنانچہ اسے پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی تصورکیا جاتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور اسے تاریخ میں کن الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔

ترامیم: آئین پاکستان میں کب اور کونسی ترمیم کی گئی، اس کی تفصیل درج ذیل ہیں۔

پہلی ترمیم: 4 مئی 1974ء: آئین پاکستان میں پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974ء کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974ء کو نافذ ہوئی، اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔

دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974ء: 1974ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

تیسری ترمیم: 18 فروری 1975ء: اس ترمیم میں   Preventive detention‘‘(احتیاطی حراست) کی مدت کو بڑھایا گیا۔   Preventive detention‘‘کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔

چوتھی ترمیم: 21 نومبر1975ء: آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم 21 نومبر 1975ء کو کی گئی جس کی رو سے پارلیمان میں اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور انہیں پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔

پانچویں ترمیم: 5 ستمبر 1976ء: آئین پاکستان میں پانچویں ترمیم کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالت عالیہ کا اختیارِ سماعت وسیع کیا گیا، ان ترامیم کو پاکستان میں 5 ستمبر 1976ء کو نافذ کیا گیا۔

چھٹی ترمیم: 22 دسمبر1976ء: ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی۔

ساتویں ترمیم: 16 مئی1977ء: وزیر اعظم کو یہ پاور دی گئی کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے جمہور(عوام) سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔

آٹھویں ترمیم: 11 نومبر 1985ء: پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمانی سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا، جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔

نویں ترمیم: 1985: شریعہ لاء کو ملک کا اعلیٰ قانون کا درجہ دیا گیا۔

دسویں ترمیم: 29 مارچ1987ء: پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا، دو اجلاس کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں ہو گا۔

گیارہویں ترمیم: 1989ء: قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کی گئیں۔

بارہویں ترمیم: 1991ء: سنگین جرائم کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں عرصہ تین سال کیلئے قائم کی گئیں۔

تیرہویں ترمیم: 1997ء: صدر کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیار ختم کیا گیا۔

چودہویں ترمیم: 3 جولائی1997ء: ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون بنایا گیا۔

پندرہویں ترمیم: 1998ء: شریعہ لاء کو لاگو کرنے کے بل کو پاس نہ کیا گیا۔

سولہویں ترمیم: 1999ء: کوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی۔

سترہویں ترمیم: 2003ء: صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔

اٹھارہویں ترمیم: 8اپریل 2010ء: اس ترمیم میں NWFP کا نام تبدیل کیا گیا، آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا اور صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا۔

انیسویں ترمیم: 22 دسمبر 2010ء: اسلام آباد ہائی کورٹ قائم کی گئی اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضح کیا گیا۔

بیسویں ترمیم: 14 فروری 2012ء: صاف شفاف انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔

اکیسویں ترمیم: 7 جنوری 2015ء: سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔

بائیسویں ترمیم: 8 جون 2016ء: الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیئے گئے، چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے۔

تئیسویں ترمیم: 7 جون2017ء: 2015ء میں قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم میں دو سال کیلئے ملٹری کورٹس قائم کیں، یہ دورانیہ 6 جنوری 2017 ء کو ختم ہوا، اس ترمیم میں ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید دو سال کیلئے (6 جنوری 2019ء) تک بڑھایا گیا۔

چوبیسویں ترمیم: 22 دسمبر2017ء: وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ اور 2017 ء کی خانہ و مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل۔

پچیسویں ترمیم: 31 مئی 2018ء: فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔