شنگھائی تعاون تنظیم…. سیاسی، اقتصادی اور معاشی تعاون پر مبنی اتحاد
لاہور: (دنیا نیوز رپورٹ) پاکستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں شروع ہوگیا ہے، دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد آبادی پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سیاسی، اقتصادی اور معاشی تعاون پر مبنی اتحاد ہے۔
یہ تنظیم جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو اس خطے کے سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے منظر نامے کیلئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
تنظیم کی بنیاد کب رکھی گئی؟
چین نے 1996ء میں قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان کے ساتھ مل کر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی بنیاد ’شنگھائی فائیو‘ کے نام سے رکھی تھی، بعد ازاں جون 2001ء میں ان پانچوں ممالک کے رہنماؤں نے شنگھائی میں ازبکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کے عزم کے ساتھ ’’شنگھائی فائیو‘ کو ’شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)‘میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔
تنظیم کے قیام کے بعد اس کے رکن ممالک نے 2002ء میں سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والے اجلاس میں چارٹر پر دستخط کئے، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) نے 2004ء میں اقوامِ متحدہ، 2005ء میں دولتِ مشترکہ اور آسیان سے رابطے قائم کئے۔
اس گروپ نے ابتدائی طور پر سرحدی تنازعات کو حل کرنے اور فوجی معاملات میں باہمی اعتماد کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی لیکن جلد ہی یہ علاقائی تعاون کیلئے ایک وسیع پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر گیا، 2001ء میں ازبکستان اس گروپ میں شامل ہوا اور شنگھائی میں ایس سی او کے باقاعدہ قیام کا اعلان کیا گیا، تنظیم کے مینڈیٹ میں سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کا احاطہ کیا گیا، جو خطے کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں باہمی انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی اہم اقدامات کئے، جنہوں نے اس اتحاد کو ایک ڈھیلے سکیورٹی اتحاد سے ایک کثیر جہتی تنظیم میں تبدیل کر دیا ہے، اس وقت اس اتحاد نے اقتصادی تعاون، سیاسی استحکام، دہشت گردی، انتہاپسندی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، ہمارے خطے میں اس کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب2017ء میں بھارت اور پاکستان کو شامل کرنے کیلئے رکنیت کی توسیع کی گئی، جس نے عالمی سطح پر اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا۔
پاکستان کو رکنیت کب ملی؟
اس تنظیم کے جولائی 2005ء میں قازقستان کے شہر آستانہ میں ہونے والے اجلاس میں پہلی بار پاکستان، بھارت، ایران اور منگولیا نے بطور مبصر شرکت کی، امریکا نے بھی 2005ء میں ہونے والے ایس سی او اجلاس میں بطور مبصر شریک ہونے کیلئے درخواست دی جسے مسترد کر دیا گیا، ایس سی او کے تحت 2007ء تک بڑے پیمانے پر نقل و حمل، توانائی اور ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلق 20 سے زیادہ منصوبے شروع کیے گئے۔
اس تنظیم کی قیادت ہیڈز آف اسٹیٹ کونسل کرتی ہے، سالانہ اجلاسوں میں اراکین کثیرالجہتی تعاون کے مسائل پر تبادلہ خیال اور تنظیم کے بجٹ کی منظوری دیتے ہیں، ایس سی او کے مقاصد میں علاقائی انسدادِ دہشت گردی اور انفراسٹرکچر بھی شامل ہے، اس تنظیم نے 2001ء سے 2008ء تک تیزی سے ترقی کی اور اقتصادی و سکیورٹی معاملات سے نمٹنے کیلئے متعدد مستقل ادارے قائم کیے، پاکستان اور بھارت 9 جون 2017ء کو ایس سی او کے مکمل رکن بنے، پھر ایران اور بیلاروس کو بھی رکنیت دے دی گئی، اب اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کو تعاون پر مبنی فورم مہیا کرنے کے ساتھ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف صلاحیتوں اور مشترکہ بیانیے پر متفق کرنا بھی ہے تاہم ادارہ جاتی کمزوریاں، مشترکہ مالیاتی فنڈز کی کمی اور متصادم قومی مفادات اعلیٰ سطحی تعاون میں حائل ہیں۔
اب تک کتنے سربراہی اجلاس ہوئے؟
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 14 ستمبر 2001ء سے لے کر اب تک 22 سربراہی اجلاس ہو چکے ہیں اور 23 واں سربراہی اجلاس 15سے 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم: سال بہ سال
سال 2001
چین، قازقستان، روس، تاجکستان، ازبکستان اور کرغزستان کی طرف سے شنگھائی میں قائم کیا گیا۔
سال 2002
شنگھائی تعاون کے ممبر ممالک کے درمیان تجارت، ٹیکنالوجی، ثقافت اور تعلیم میں تعاون کیلئے دستخط کئے گئے۔
سال 2005
شنگھائی تعاون تنظیم میں اقوام متحدہ مبصر کے طور پر شامل ہوا۔
سال 2007
نقل وحمل، توانائی اور ٹیلی کمیونیکیشن سمیت ایس سی او کے بیس بڑے منصوبوں پر اتفاق کیا گیا۔
سال 2012
افغانستان شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کے طور پر شامل ہوا
سال 2017
ہندوستان اور پاکستان مستقل رکن کے طور پر شامل ہوئے۔
سال 2021
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران رکن بن گیا جبکہ مصر، قطر اور سعودی عرب ڈائیلاگ کا حصہ بنے۔
سال 2022
تنظیم کے اندر بیلاروس کی حیثیت کو ایک رکن ریاست تک بڑھانے کا عمل شروع ہوا۔
سال 2023
شنگھائی تعاون تنظیم میں سعودی عرب کی شمولیت کے لئے اقدامات کئے گئے۔