پاکستان میں آئینی ترامیم کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی وہ ترامیم ہیں جو پانچ مارشل لائوں میں براہ راست ڈکٹیٹر بقلم خودکرتے رہے۔ جس میں پہلے آئین سے آخری آئین تک‘ آئین کو معطل رکھنا‘ دستور سبوتاژ کرنا اور ریاست کے عوام اور عمرانی معاہدے کو کاغذ کا چیتھڑا کہہ کر پائوں تلے روند ڈالنے کی تاریخ ملتی ہے۔ آئینی ترامیم کا دوسرا حصہ چند خاندانوں کو‘ چند کاروباروں کو اور بالا طبقات کو عوام پر حاوی اور مسلط رکھنے کے لیے لایا جاتا رہا۔ اس قبیل کی ترامیم میں مذہبی سیاست کرنے والی اکثر سیاسی جماعتوں نے مذہب کارڈ استعمال کیا اور سادہ لوح پاکستانی عوام ان مہمات میں ہر طرح کا نذرانہ دیتے رہے۔ اس تاریخ کے اندر سے یہ تاریخ بھی سامنے آئی کہ ہر ایسی مہم کے بعد ظاہر ہوا کہ دراصل یہ ترامیم ایک عالمی ایجنڈے کا پاکستانی ماڈل تھیں۔ جس کے نتیجے میں لوگ سیاست میں مذہبی کارڈ سے اس قدر مایوس ہوگئے کہ آج کئی عشروں سے دیکھی‘ اَن دیکھی اور آزمودہ بیساکھیوں کے بغیر شاید ہی کوئی اس طرزِ سیاست کے کرتا دھرتائوں کو اپنا مستقبل سونپنے پر تیار ہو۔ ایک تاریخی بات یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ یہ کارڈز جنرل یحییٰ‘ جنرل ضیا اور جنرل مشرف‘ تینوں کے مارشلائوں کی مشترکہ ڈاکٹرائن رہی ہے۔ اسی تسلسل میں Modern enlightenment کے دعویدار جنرل مشرف کو ملا ملٹری الائنس کے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ہماری آئینی تاریخ کا تیسرا بڑا حصہ عدلیہ کو مقتدرہ کے گھر کی لونڈی اور ایگزیکٹو کی جیب کی گھڑی بنانے پر مشتمل ہے۔ اس گھناؤنے ماڈل کے دو بانی مبانی ایسے تھے‘ جنرل اسکندر مرزا اور جسٹس منیر‘ جن کا نام لیتے ہوئے اُبکائی آتی ہے۔ کیونکہ آج جو کچھ قوم بھگت رہی ہے وہ اُنہی دونوں کی غداری کا بدبودار نمونہ ہے‘ جو تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔
خدا خدا کر کے 1973ء میں آدھے پاکستان کے لیے ایک متفقہ دستور بنایا گیا۔ اس دستور کی اساس سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آئین کے باب نمبر 1 آرٹیکل 175 کی ذیلی آرٹیکل نمبر 3 ان اساسی لفظوں کے ساتھ 12 اپریل 1973ء کے روز پاکستان میں نافذ ہوا۔
Article175 (3):
The Judiciary shall be seprated progressively from the executive within five years from the commencing day.
یعنی ہمارے پہلے متفقہ آئین نے یہ کمانڈ دے ڈالی کہ جوڈیشری کو انقلابی بنیادوں پر اقدامات کر کے ایگزیکٹو سے آئین کے نافذ ہونے کے دن سے لے کر پانچ سال کے اندر اندر علیحدہ؍ آزاد کر دیا جائے۔ یہ پانچ سال پورے ہونے سے پہلے عدلیہ کی ایگزیکٹو سے علیحدگی کا عوامی خواب پورا نہ ہو سکا؛ چنانچہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق سینئر بیورو کریٹ شرف فریدی نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر لیا۔ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے سال 1984ء میں عدلیہ کو ایگزیکٹو سے فوراً علیحدہ کرنے کا تگڑا حکم صادر کیا۔ 1973ء کے دستور کی بدبختی یہ بھی ہوئی کہ اُس کی عمر پانچ سال پوری ہونے سے پہلے جنرل ضیا نے آئین اور پارلیمان کو کچل کر ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ اسی مارشل لاء میں مارشل لاء کی حامی لنگڑی لولی پارٹیوں اور سرکاری مولویوں پر مشتمل ''شوریٰ‘‘ بنائی گئی۔ اس مجلس شوریٰ کو ضیا مارشل لاء نے ایگزیکٹو سے عدلیہ کی آزادی روکنے کے لیے استعمال کیا؛ چنانچہ صدارتی P.O نمبر 14 برائے سال 1985ء کے تحت آرٹیکل 175 میں ترمیم کر کے پانچ سال کے عرصے کو 14 سال کے عرصے تک مزید توسیع دے دی گئی۔
قارئینِ وکالت نامہ! اتوارکی رات میرے لاء آفس کے ڈیسک پر 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ میرے سامنے پڑا ہے‘ جو ابھی سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ اس مسودے میں‘ جو چند گھنٹے پہلے‘ پہلی بار کابینہ کے اندر پہنچ کر کھلا‘ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ رکھنے والا آرٹیکل آج بھی موجود ہے۔ جس کا ایک مطلب یہ ہوا اس آئینی ترمیم کو آرٹیکل 175 (3) کے تحت بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ 26ویں ترمیم عدلیہ کی آزادی اور ایگزیکٹو سے علیحدگی آئینی ضمانت سے کھلی متصادم ہے۔
اب آئیے مڈ نائٹ آئینی ترمیم کی طرف۔ جس کے ذریعے خانہ ساز قاضیوں کو ملک کی ایگزیکٹو‘ سب سے بڑی عدالت میں داخل کرنے کا اختیار رکھے گی۔ جس کے لیے نئی ترمیم میں شامل آئین کے آرٹیکل 175A کے ذیلی کلاز 2 میں دیا گیا شیڈول دیکھنا ضروری ہے‘ جس کے الفاظ یہ ہیں:For the appointment of the judges of the Supreme Court the commission shall consist of۔ آگے شیڈول کے اینٹری نمبر VII میں سینیٹ کے دو ممبر سرکار کی طرف سے اور دو ممبر حزبِ اختلاف کی جانب سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس لگائیں گے اور جج لگائیں گے۔ یہ حضرات انگوٹھا چھاپ ہوں‘ منی لانڈرنگ کے مجرم ہوں‘ سزا کاٹ کر آئے ہوں یا قتل کے مقدمات بھگت رہے ہوں‘ اُنہیں اختیار ہو گا کہ وہ دنیا کی آٹھویں بڑی طاقت کے انصاف کے سب سے بڑے مندر میں اپنی مرضی کے پروہت بٹھائیں۔
یہاں پہنچ کرقلم ٹوٹ گیا ہے۔ کیا ہم جانتے نہیں کہ کون سے لوگ کتنے خرچ پر‘ کس طرح کے پاپڑ بیل کر اسمبلی میں جاتے ہیں؟ اسی لیے ٹرانسپیرنسی‘ گڈ گورننس اور عوامی مسائل کا Suo Moto نوٹس میں آزادانہ فیصلے دینے والا 184 (3)کا اختیار بھی سپریم کورٹ سے چھن گیا۔ عدلیہ کی آزادی ایگزیکٹو کے زیرِ پا چلی گئی۔ کچھ عاقبت نااندیش سوچتے ہوں گے‘ 25 کروڑ لوگ فتح ہو گئے۔ اُن کے لیے مظفر وارثی نے یہ پیغام چھوڑا۔
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا
دعووں کی ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا
فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا
چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے
اپنی ہی کمائی کو تو لوٹا نہیں جاتا
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن
قانون سے قانون کو بدلا نہیں جاتا
ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا
طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آ جائے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا
دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا
اللہ جسے چاہے اُسے ملتی ہے مظفرؔ
عزت کو دکانوں سے خریدا نہیں جاتا
اصل کھیل اب شروع ہوا ہے۔ مجھے کہنے دیں‘ ہم جیتے جیتے جی غلام کبھی نہیں بن سکتے کیونکہ ہم نے مر مر کر فرنگی سے آزادی لی۔