تازہ اسپیشل فیچر

حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام حجاج (حج کرنے والوں) اور معتمرین (عمرے کرنے والوں) کا حج اور عمرہ اپنے کرم سے قبول فرمائے۔

اس دوران ہونے والی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور بار بار بیت اللہ شریف کی مقبول حاضری کی سعادت نصیب فرمائے، اللہ کریم ہر مسلمان کے دل کی اس مبارک آرزو کو پورا فرمائے کہ اسے حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسولﷺ کی توفیق زندگی میں ایک بار ضرور ملے۔

بیت اللہ کی ایسی کشش ہے جو ہر مسلمان کو بار بار اپنی طرف کھینچتی ہے، اس کے انوار و برکات کا صحیح ادراک تو اسے ہی ہو سکتا ہے جو وہاں جا کر یہ خود اپنے دل سے محسوس کر چکا ہو، بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑنے سے دل کی بدلتی کیفیت کسی کو سمجھانا بہت مشکل ہے یہ الفاظ کی حد بندیوں سے آزاد احساس ہے، یہ وہاں جا کر ہی محسوس ہوتا ہے کہ میں پہلے کیا تھا؟ اب کیا ہوں؟ میں پہلے کہاں تھا؟ اب کہاں ہوں؟

کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اس ذات نے آپ کو اپنے گھر اور اپنے محبوبﷺ کے در کی زیارت کا موقع عطا فرمایا، آپ نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ بھی کیا کہ آپ کی طرح دنیا بھر کے مسلمان ہزارہا گناہوں میں لتھڑے لاکھوں لوگ رنگ، نسل، قوم قبیلہ، برادری، زبان وغیرہ کے فرق کو مٹا کر دیوانہ وار، بے خودی کے عالم میں احرام کی دو چادروں میں اپنے گناہوں کی گٹھڑیاں چھپائے برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ زبان کو یوں جنبش دے رہے تھے: ’’لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک‘‘۔

حج بظاہر دیکھنے میں ایک بامشقت فریضہ ہے، اس کی ادائیگی کیلئے جہاں انسان کا اچھا خاصا مال لگتا ہے وہاں اس کو اچھی خاصی جسمانی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں محبت الہٰی موجزن ہو، ذات حق کی طلب صادق ہو تو مشقت کا پتہ چلتا ہے نہ ہی مال کی پرواہ ہوتی ہے بلکہ صرف اسی ایک کی محبت، معرفت، خوشنودی اور رضا کی جستجو ہوتی ہے۔

پھر بھی دیکھنے میں جان، وقت اور مال سب اس کیلئے خرچ کیا جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے، اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو‘‘ (سورۃ محمد : 33)

اس کی قبولیت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی کو چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اختیار کرے، بیت اللہ شریف اور روضہ رسولﷺ کے انوار و برکات جو اپنے سینے میں محفوظ کر کے لایا ہے اسے ضائع ہونے سے بچائے، اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو اللہ کے احکامات اور نبی کریمﷺ کے مبارک طریقوں میں ڈھال دے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔

ہر وقت اپنے دل کو عبادات میں لگائے رکھے، اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھے، ہر وقت اللہ کی رضاء پیش نظر ہو، قومی، علاقائی اور خاندانی رسومات پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دے، اپنی ذاتی اور نجی زندگی کو گناہوں سے آلودہ نہ کرے، اگر گناہ ہو جائے تو فوراً ان سے توبہ کرے۔

جذبہ خیر خواہی کو اپنے جذبات پر غالب رکھے، غریب مفلس، نادار، مساکین، یتامیٰ اور مستحقین لوگوں کی حتیٰ الامکان امداد کرے، مظلوموں کی داد رسی کرے، شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہو اور غیر اسلامی کاموں لایعنی باتوں سے خود کو بچانے کی فکر کرے، الغرض اس آیت کی عملی تفسیر بن جائے: ’’اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ‘‘۔

نامعلوم زندگی میں دوبارہ حج کی سعادت ملتی ہے یا نہیں؟ اس لیے اس نعمت پر شکر ادا کریں اور اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لائیں کہ حج کا مقصد پورا ہو جائے، جیسے اللہ نے حج کرنے کی توفیق نصیب فرمائی ہے ایسے ہی مقبول و مبرور بھی فرمائے، دل میں دعا بھی کرتے ہیں اللہ پاک آپ کو بار بار یہ عظیم الشان سعادت نصیب فرمائے بلکہ ہر مسلمان کو یہ نعمت عطا فرمائے۔ آمین

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔