تازہ اسپیشل فیچر

رشتوں کا ادب و احترام، نبیﷺ کی سنت

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اپنی ہمت کے بقدر اُن کے ساتھ تعاون کرنا، ان کی خدمت کرنا،ا ُن کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنا اوران کی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات سے سرشار رہنا شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کہلاتا ہے۔

اور رشتہ داروں کے ساتھ بدخْلقی و بدسلوکی کے ساتھ پیش آنے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے، بخاری شریف میں ہے کہ ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلے کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے بلکہ اصل میں صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (حدیث : 949)

قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کی تاکید اور قطع رحمی کی مذمت بیان کی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے ’’ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیکی (حسن سلوک) کرو، رشتہ داروں اور یتیموں، مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور پاس بیٹھنے والے (رفیق سفر، اہلیہ) اور مسافر اور اپنے غلاموں کے ساتھ بھی (نیکی کرو)، بیشک اللہ پسند نہیں کرتا اترانے والے، بڑائی کرنے والے شخص کو‘‘ (سورۃ النساء: 36)

سورۃ رعد میں ارشاد ربانی ہے کہ’’ وہ لوگ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا اور نماز قائم کی، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا۔

برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کیلئے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ’’سلام ہو تم پر‘‘ بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر ۔ (22تا25)

ہماری معاشرتی زندگی رشتوں اور قرابتوں کے گرد گھومتی ہے اور ہر فرد ان رشتوں کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، نکاح کے بعد کچھ رشتے وجود میں آتے ہیں وہ بھی قابل احترام ہوتے ہیں جن کو سسرالی رشتہ کہا جاتا ہے، سسرالی رشتہ درحقیقت دو علیحدہ علیحدہ خاندانوں کو ایک دوسرے کا جُز بنا دیتا ہے یعنی یہ رشتہ ایک خاندان کو دوسرے خاندان کے قریب کر دیتا ہے، اسلام نے جہاں قریبی رشتوں کے تقدس کا حکم دیا وہاں سُسرالی رشتوں کے احترام کا بھی حکم دیا کہ مرد شادی کے بعد عورت کی قریبی رشتہ دار عورتوں سے دور رہے۔

اسی طرح عورت مرد کے قریبی رشتہ داروں سے دور رہے لیکن عصر حاضر میں رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے، مرد و عورت کے ازدواجی تعلق قائم کرنے کیلئے اسلام نے نکاح کا قانون متعارف کرایا ہے اور ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد کچھ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جن کو سسرالی رشتہ سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ اللہ نے فرمایا: ’’وہی ہے جس نے آدمی کو پانی سے بنایا پھر اس کے (نسلی) رشتے اور سسرالی رشتے بنا دیئے اور تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے‘‘ (فرقان:54)۔

اللہ نے مرد و عورت کو پیدا کیا پھر اس کیلئے نسب کے رشتے دار بنا دیئے پھر کچھ مدت بعد سسرالی رشتے قائم کر دیئے، عورت اپنی تمام لطافتوں کے باوجود ادھوری ہے دونوں مل کر ایک مکمل وحدت بنتے ہیں، ان کے ہاں بیٹیاں بھی ہوں گی اور بیٹے بھی، کسی کے یہ سسرال بنیں گے اور کوئی ان کے بچوں کے سسرال ہوں گے، اس طرح ایک انسانی معاشرہ معرض وجود میں آئے گا۔

اسلام نے آدمی کی اصل فطرت کی رعایت رکھتے ہوئے اس شعبہ سے متعلق ایسا قانون اور ضابطہ وضع کیا ہے تاکہ رشتوں کا تقدس پامال نہ ہو، محرمات جن کی حرمت بالکل واضح ہو چکی ہو عادتاً انسان ان کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہیں کرتا کیونکہ وہ رشتے قابل عزت اور لائق احترام بن جاتے ہیں۔

انسانی فطرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ جن رشتوں کے تقدس کا لحاظ رکھنا لیکن عصر حاضر میں کئی کیسز عدالتی کارروائی میں ہیں اور بہت سے کیسز ایسے بھی ہیں جو عدم پیروی کی بنا پر خارج کئے جا چکے ہیں، عصر حاضر میں اخبارات میں قریبی رشتوں کے ساتھ بدکاری کی خبریں شائع ہو رہی ہیں، اسلامی معاشرے میں قابلِ قبول رویہ پاک دامنی کا ہے اور اس کے برعکس بے حیائی کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔

سسرالی رشتے کا ادب و احترام خود نبی رحمتﷺ کے مبارک فرمان سے بھی ملتا ہے، حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’تم مصر فتح کرو گے، جب تم اسے فتح کرو تو وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیونکہ ان کا احترام ہے اور قرابت داری ہے یا فرمایا کہ سسرالی رشتہ ہے‘‘۔

اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں: ’’اگرچہ مصر والے لوگ معاملات میں سخت ہیں، ان کے مِزاج بھی سخت ہیں اور ان کی طبیعت بھی تیز ہے مگر تم ان کی سختی برداشت کرنا ان سے برتاؤ اچھا کرنا ان کی سختی کا بدلہ نرمی سے کرنا(کیونکہ) ہمارا مصر والوں سے دو طرح کا تعلّق ہے۔

ایک یہ کہ (حضرت ماریہ قِبْطِیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مصر سے آئی تھیں جن کے بطن شریف سے (حضرت سیّدنا) ابراہیم ابن رسول اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے، دوسرا تعلق یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مصر ہی سے تھیں۔(مزید فرماتے ہیں) مسلمان کو چاہئے کہ اپنے نسبی رشتہ کی طرح سسرالی رشتہ کا بھی احترام کرے‘‘۔

ساس اور داماد کا رشتہ شریعت کی نظر میں نہایت پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے، ساس کا درجہ بھی ماں کے قریب ہوتا ہے، اسی لئے ان رشتوں کی پاکیزگی کا اسلام میں بڑا لحاظ رکھا گیا ہے، اس تقدس کی بنا پر ساس سے نکاح دائمی اور ابدی طور پر حرام ہے، نکاح ایک مقدس رشتہ ہے جس کو برقرار رکھنا ضروری ہے شریعت اسلامیہ میں یہ بڑے اہم مسائل ہیں جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔

عصر حاضر میں جب عریانی اور فحاشی عروج پر ہے محارم رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے، آئے روز اخبارات میں ایسے واقعات عام ہو رہے ہیں، اگرچہ مرد اور عورت کا باہمی تعلق جو ایک فطری و طبعی عمل ہے اسلام زندگی کے اس مرحلہ میں بھی انسان کو آزاد نہیں چھوڑتا کہ وہ جس طرح چاہے اور جس سے چاہے ازدواجی تعلق قائم کر لے اور رشتوں کے تقدس کو پامال کرتا رہے۔

اگر مرد و عورت نکاح کرنے کے بعد قریبی رشتوں (حرمت والے رشتوں) سے ازدواجی تعلق قائم کریں گے تو نا موافق حالات پیدا ہو جائیں گے جس سے رشتے مضبوط نہیں رہیں گے، جب مردو زن کے درمیان قربت قائم ہوجائے تو احترام اور رازداری کا تقاضا یہ ہے کہ مردو عورت اپنے اصول و فروع کیلئے حرام قرار پائیں، ملکی قوانین سے عدم واقفیت، مسلم معاشرہ کی اسلام سے دوری، عریانی اور فحاشی کا بڑھتا ہوا رجحان فیملی سسٹم کی تباہی یہ وہ اسباب ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سسرالی رشتہ کی حرمت کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے لوگوں میں اس مسئلہ کا شعور دینا بہت ضروری ہے کہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد کون کون سے رشتے حرام ہو جاتے ہیں تاکہ ان رشتوں کی حرمت برقرار رہے اور رشتوں کا تقدس پامال نہ ہو۔

عرب جاہلی کے بعض طبقوں میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحات بیٹے کو وراثت میں ملتی تھیں اور بیٹے اُنہیں بیوی بنا لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے، قرآن نے فرمایا کہ یہ کھلی ہوئی بے حیائی، نہایت قابل نفرت فعل اور انتہائی برا طریقہ ہے، لہٰذا اِسے اب بالکل ممنوع قرار دیا جاتا ہے، اِس سے پہلے جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، لیکن آئندہ کسی مسلمان کو اِس فعل شنیع کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔

جس شخص نے اپنی ماں سے نکاح کیا اس کی گردن اتارنے کا حکم دیا جس کے بارے میں امام محمد بن عیسیٰ ترمذی نقل کرتے ہیں :حضرت براء ابن عازب فرماتے ہیں کہ میں اپنے خالو ابو بردہ بن نیار میرے پاس سے گزرے اور ان کے پاس جھنڈا تھا، میں نے کہا کہاں جانے کا ارادہ ہے تو فرمایا کہ مجھے رسول اللہﷺ نے بھیجا ہے اس شخص کی طرف جس نے باپ کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی بیوی سے شادی کی ہے، رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑادوں اور اس کا مال لے لوں۔

جس نے اپنی ماں سے نکاح کیا نبی کریمﷺ نے اسے قتل کا حکم دیا اور جائیداد کے ضبط کرنے کا بھی حکم دیا تاکہ لوگ قرابت داری کا خیال رکھیں، قرابت داروں سے بدکاری کی سخت وعید آئی ہے یہاں تک کہ اسے قتل کا حکم دیا گیا کیونکہ محرم کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور محرم کے ساتھ انسان کا ملنا جلنا رہتا ہے اور اگر وہ اس سے بدکاری کر لے، جب اسے ملے گا تو کتنی شرمندگی ہو گی۔

اسلام نے عورت پربہت بڑا احسان کیا ہے کہ انتہائی بے راہ روی کے دور میں انتہائی مضبوط اخلاقی بنیاد فراہم کی اور عورت کے سب سے محترم مقام یعنی ماں اور اس کی ہر حیثیت یعنی بہن، بیوی اور بیٹی کے لحاظ سے اس کو عزت ملی جبکہ یورپ آج رشتوں کی حرمت کو تباہ کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔

عصر حاضر میں قریبی رشتوں کے ساتھ بدکاری کے واقعات عام ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں علماء سے رائے لی جائے اور اس پر پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ لوگ رشتوں کے تقدس کا لحاظ رکھیں، عصرحاضر میں مصاہرت کے مسائل سے عدم واقفیت کی بنا پر رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے، آج کے اس نا زک دور میں جب رسم و رواج عام ہو چکا ہے وہ لوگ کیسے اچھی زندگی گزاریں گے جن کا خاندانی نظام خراب ہو چکا ہے، ان کے ہاں تو عفت اور پاکدامنی کا تصور بھی موجود نہیں ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ جن سسرالی رشتوں کی حرمت ہے ان کو واضح کیا جائے تاکہ امت کی دین کی طرف رہنمائی ہو سکے۔

اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی اور نبی کی سیرت کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے انسان کو نکاح کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں اور انسانی حقوق کے ادا کرنے میں جو پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اگر انسان ان حقوق و ذمہ داریوں کو اسلامی تعلیمات اور اسؤہ نبوی کی روشنی میں ادا کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں نکاح خود انسان کے حق میں روحانی اور اخلاقی ترقی کیلئے بہترین ذریعہ ہے اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد کون سے رشتے حرام ہیں ان کے متعلق آگاہی ضروری ہے۔

رشتوں کا تقدس
رشتوں کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں، اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی یہ کائنات خوبصورت اور حسن سے آراستہ ہے اس کائنات کی بقاء و تسلسل کیلئے جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بھی خوبصورت ہے، اللہ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے اور توالد و تناسل کا خوبصورت سلسلہ قائم فرمایا۔

رشتوں کے متعلق قرآن حکیم میں ہے: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مردو عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے، اس آیت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ رشتوں کا لحاظ رکھو کہ کون سے رشتوں سے عقد جائز ہے اور کون سے رشتے ایسے ہیں جن سے عقد یا ازدواجی تعلق جائز نہیں ہے۔

قریبی رشتوں کے ساتھ بدکاری کے واقعات ہمارے معاشرے میں شروع ہوگئے ہیں تو اس سے آنے والی نسل پر تباہ کن اثرات مرتب ہو نگے اس قسم کے واقعات ملک کے مستقبل کو مجروح کر رہے ہیں اگر سدباب نہ کیا گیا تو رشتوں کا تقدس پامال ہو تا رہے گا۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔