سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ، معاملہ مزید پیچیدہ
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ کےسنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
جہاں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ آرٹیکل 51 کی شق ڈی کے مطابق خواتین اور اقلیتی نشستیں صرف ان جماعتوں کو دی جاسکتی ہیں جوالیکشن کمیشن کو دی جانیوالی فہرست میں شامل ہوں
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے نہ تو مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کو چیلنج کیا تھا، پی ٹی آئی کا بنیادی معاملہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں اور اب مخصوص نشستوں کی حقدار سنی اتحاد کونسل ہے۔
کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ ایسا لگتا ہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکلزکی تشریح کرنے کے بجائے انہیں دوبارہ لکھا، اگر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی امیدوار مستقبل میں دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل ہوتے ہیں تو مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جس کا اس نے دعویٰ بھی نہیں کیا اور سپریم کورٹ جب 185 کے تحت کسی بھی چیز کا جائزہ لیتی ہے تو یہ عام طور پر ان درخواستوں تک محدود ہوتا ہے جو نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک پہنچتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں کے اراکین کو سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا اور عدالت میں جن 80 ارکان کا ذکر کیا گیا وہ نہ تو عدالت میں پیش ہوئے اور نہ ہی دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔
چند سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے، یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے، اسے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا، یہ ایک منفرد فیصلہ ہے جو آئین سے بالاتر ہے، عدالت نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول کر لیا ہے جبکہ اس کے اراکین نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔
ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے نشان پر الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں کی قدر ختم ہو جائے گی، آزاد امیدوار اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹیاں تبدیل کر سکیں گے جبکہ اس قسم کے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
معتبر حلقوں کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک ایسا نیا سسٹم سامنے آئے گا جس کی قانون اور آئین میں کوئی جگہ نہیں ، بدقسمتی سے فیصلے آئین و قانون کے مطابق دینے کی بجائے سیاسی جماعتوں اور انکی سوشل میڈیا ٹیموں کو دیکھ کر دیئے جا رہے ہیں۔