جسٹس یحییٰ آفریدی 30ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہو چکے ہیں۔سپریم کورٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بطور چیف جسٹس پہلے دن 30 مقدمات کی سماعت کی جبکہ پیر کے روز سپریم کورٹ کا فُل کورٹ اجلاس بھی ہوا جس کا مقصد سپریم کورٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینا‘ زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹانے کی حکمت عملی طے کرنا اور عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر ابھی 59 سال ہے‘ ویسے تو سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہے لیکن چیف جسٹس یحییٰ آفریدی 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ 26ویں آئینی ترمیم ہے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔ بادی النظر میں جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس آف پاکستان نہ بننے میں اپوزیشن رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپوزیشن کی اس مہم جوئی نے حکومتی اراکین کو جسٹس منصور علی شاہ کی غیرجانبداری پر سوال اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔یہی وجہ ہے کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی نظرِ انتخاب جسٹس منصور علی شاہ کے بجائے جسٹس یحییٰ آفریدی پر جا ٹھہری۔جسٹس یحییٰ آفریدی کی شخصیت‘ قابلیت‘ ذہانت اور عدالتی فیصلوں پر بھی سب مطمئن تھے‘ لہٰذا خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات ان کے حق میں آئیں اور وہ پاکستان کے 30ویں چیف جسٹس مقرر ہو گئے۔
دوسری جانب اگر سبکدوش چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوادعی فل کورٹ ریفرنس کی بات کریں تو یہ عدالتی روایت ہے کہ چیف جسٹس کے الوادعی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سبھی جج صاحبان شریک ہوتے ہیں لیکن اس عدالتی روایت کے برعکس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں جسٹس منصور علی شاہ سمیت پانچ جج صاحبان نے شرکت نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں الوادعی ریفرنس میں شریک نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے اوور سٹیپنگ پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا ریفرنس بھی اٹینڈ نہیں کیا تھا‘ اس لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس بھی اٹینڈ نہیں کروں گا۔ اس خط میں اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔ انہوں نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مزید دروازے کھول دیے۔ انہوں نے عدلیہ کے دفاع کے لیے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے‘ انہوں نے عدلیہ میں مداخلت پر شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھا۔جسٹس منصور علی شاہ کا یہ خط عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔دیکھا جائے تو جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں نئے چیف جسٹس صاحب کے لیے بھی سبق پوشیدہ ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا تمام ججز کو ساتھ ملا کر مفاہمت سے آگے بڑھنا سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں تقسیم کے تاثر کو دور کر سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے اُن آٹھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے 12 جولائی کو اپنے مختصر فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا اور اس پر عملدرآمد نہ کرنے کو توہینِ عدالت کے مترادف قرار دیا تھا۔ اب آئندہ چند روز میں یہ واضح ہو جائے گا کہ اس فیصلے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس آف پاکستان الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کر کے گئے ہیں۔انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس نہیں بن سکتا۔ انہوں نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ کرنے والے آٹھ جج صاحبان کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا کیونکہ ان کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جسٹس منصور علی شاہ کے اس خط میں کی گئی باتیں اپنی جگہ مگرمیں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ میں ان کے خاندانی پس منظر سے بھی واقف ہوں۔ قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی عیسیٰ مُلک کے ممتاز سیاستدان تھے۔ جب میں بلوچستان کا الیکشن کمشنر تھا تو میرا اُن سے کافی میل ملاپ رہا۔ جب وہ اپنی صاحبزادی سے ملنے لاہور آتے تھے‘ جو کنیرڈ کالج کی طالبہ تھی‘ تو وہ مجھ سے پنجاب یونیورسٹی میں خصوصی ملاقات کرتے تھے۔ میں نے ان کی پروفیسر وارث میر‘ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید‘ علامہ علاء الدین صدیقی‘ ڈاکٹر باقر اور پروفیسر ظفر قادر سمیت یونیورسٹی کے کئی شعبہ جات کے سربراہان سے ملاقات کرائی تھی۔قاضی عیسیٰ صاحب سے میرا تعارف ایئرمارشل نورخان نے کرایا تھا‘ ان کے پرنسپل سیکرٹری نصر من اللہ تھے جو جسٹس اطہر من اللہ کے والد تھے۔ بہرحال قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس کیے گئے فیصلے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔یہ الگ بات کہ چیف جسٹس بننے سے پیشتر ان کے نظریات عوامی دلچسپی کے عین مطابق تھے‘ بعد ازاں انہوں نے اپنی شخصیت کو متنازع بنا لیا۔ اگر قاضی فائز عیسیٰ متنازع نہ ہوتے تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر سمیت کئی اہم عہدوں پر منتخب ہو سکتے تھے لیکن اب یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی راہ تبھی ہموار ہوگئی تھی جب وہ چیف جسٹس آف بلوچستان مقرر ہوئے تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بلوچستان مقرر کرنے میں اُس وقت کے صدر آصف زرداری کی کمزور ترین پالیسی کارفرما تھی کیونکہ ایک ایسے شخص کو‘ جس کو ہائیکورٹ کا کوئی تجربہ نہیں تھا‘ براہِ راست چیف جسٹس بلوچستان مقرر کر دینا عجیب منطق تھی۔ اُن دنوں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا طوطی بولتا تھا اور انہوں نے آئین کے آرٹیکل 209 کو نظرانداز کر کے چاروں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے قابل ترین 110 ججوں کو برطرف کر دیا تھا۔ وکلا برادری نے بھی ان ججز کا ساتھ نہ دیا۔ کچھ ججز نے اپنی مراعات کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے آمرانہ اور غیر آئینی اقدام کے آگے سر تسلیم خم کر لیا‘ لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے قابل ترین ججز گھر چلے گئے جس سے قاضی فائز عیسیٰ کو آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سپریم کورٹ کا شاندار انتظامی ڈھانچہ تو اصل میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے مسمار کیا تھا جس کے اثرات اب تک موجود ہیں۔ ویسے تو عدلیہ میں کشمکش 1962ء سے جاری ہے جب مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں ججز کے اختلافات کو دیکھ کر صدر ایوب خان نے منظور قادر کو چیف جسٹس مغربی پاکستان مقرر کر دیاتھا جو کہ ان کے وزیر خارجہ تھے‘ لیکن سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں اب بھی تقسیم کا تاثر موجود ہے جسے بلا تاخیر دور کیا جانا ازحد ضروری ہے۔