کچھ عرصہ قبل کا قصہ ہے‘ ٹویٹر (ایکس) پر ایک اکائونٹ جب بھی کہیں زلزلے کی پیشگوئی کرتا تو واقعی اس جگہ پر زلزلہ آ جاتا۔ اگرچہ اس اکائونٹ کے ایڈمن نے واضح کیا کہ ہم ارضیاتی حرکات وسکنات کے عمل کو نوٹ کرتے ہیں اور ان میں کسی بڑی تبدیلی سے زلزلہ آنے کا امکان ہوتا ہے مگر لازم نہیں کہ بہرصورت زلزلہ آئے۔ تاہم جب دو‘ تین بار ایسا ہوا تو لوگوں نے مان لیا کہ جب بھی یہ اکائونٹ زلزلے کی پیشگوئی کرے گا تو ویسا ہی ہوگا۔ شومیٔ قسمت کہ ارضیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے اس اکائونٹ نے ایک دن پاکستان میں زلزلہ آنے کی خبر دی۔ جس وقت یہ ٹویٹ آیا‘ اس سے کچھ عرصہ قبل ترکیہ اور شام میں ایک ہولناک زلزلہ آیا تھا۔ بس پھر کیا تھا‘ پورے پاکستان میں افواہ پھیل گئی اور اس دن کا شدت سے انتظار ہونے لگا مگر یہاں زلزلہ نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان محفوظ رہا۔ تاہم اس دوران افواہوں کا بازار خوب گرم رہا اور لوگ اس ''پیشگوئی‘‘ کو نجانے کیا کچھ بنا کر پیش کرتے رہے۔
افواہ سازی اب ایک باقاعدہ صنعت بن چکی ہے اور لوگ افواہ پھیلا کر پیسے کماتے ہیں۔ صرف پیسے نہیں کماتے بلکہ اسے اپنے مذموم مقاصد اور ایجنڈے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے بہت سے شدت پسند جہاد کے نام پر نوعمر لڑکوں کی ذہن سازی کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑاتے ہیں اور ان کا پروپیگنڈا اور افواہ سازی اتنی منظم ہوتی ہے کہ نوجوان ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو افواہ سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا سیلز بنے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی قسم کی جھوٹی خبریں پھیلتی رہتی ہیں۔ میڈیا پر تو پھر کوئی رولز اور ریگولیشن ہیں لیکن سوشل میڈیا کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک جھوٹی خبر گھڑی جاتی ہے اور پہلے اسے ایک اکائونٹ سے شیئر کیا جاتا ہے اور پھر مخصوص اکائونٹس سے ری شیئر کر دیا جاتا ہے‘ پھیلتے پھیلتے یہ ''خبر‘‘ عام صارفین تک پہنچ جاتی ہے اور وہ بھی اسے آگے شیئر کرنے لگتے ہیں۔ ایس ایم ایس‘ وٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ ٹک ٹاک‘ یوٹیوب اور میسنجر کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ اکثر اس قسم کا میسج بھی آتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ خواب دیکھا ہے‘ آپ یہ پیغام اتنے لوگوں کو فاروڈ کریں ورنہ کوئی نقصان ہو جائے گا۔ کچھ ضعیف الاعتقاد فوری اس قسم کے میسج آگے پھیلا دیتے ہیں۔ اسی لیے اب وٹس ایپ نے اس قسم کے پیغامات پر 'فاروڈ‘ لکھا ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ یہ میسج بہت بار بھیجا جا چکا ہے اور ایسا میسج ایک وقت میں زیادہ لوگوں کو نہیں بھیجا جا سکتا۔
خبر ہمیشہ تصدیق کے بعد ہی آگے شیئر اور پوسٹ کی جانی چاہیے۔ کوئی بھی خبرجس کی حقانیت پر شک ہو اسے آگے مت پھیلائیں۔ ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ہم پہلے خبر کی تصدیق کریں۔ محض لائکس‘ ہٹس اور ویوز کیلئے ایسی کوئی چیز شیئر نہ کریں جس سے عوام میں خوف وہراس پھیلے یا کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ وٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ انسٹاگرام اور دیگر سماجی رابطے کی سائٹس اور اپیلی کیشنز کا استعمال محتاط ہو کرنا چاہیے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ویب چینلز سوشل میڈیا کی خبروں کو نشر کر دیتے ہیں‘ جو تصدیق شدہ نہیں ہوتیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ہر چیز درست نہیں ہوتی لہٰذا خبر کی نشر و اشاعت سے قبل اس کی تصدیق لازمی کریں۔ اسی طرح بہت سی نامور شخصیات کے نام سے سوشل میڈیا اکائونٹس بنے ہوئے ہیں مگر اکثر ایسے اکائونٹس فیک ہوتے ہیں۔ خبر دینے سے پہلے یہ بھی تصدیق کر لینی چاہیے کہ مذکورہ شخص سوشل میڈیا استعمال کرتا بھی ہے یا نہیں۔
لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک ایسے واقعے کو بنیاد بنا کر‘ جو سرے سے ہوا ہی نہیں‘ جو کچھ ہوا وہ منظم افواہ سازی ہی کا شاخسانہ تھا۔ نوجوانوں کے علاوہ بھی بہت سے افراد اس جھوٹ کے زیر اثر آ گئے۔ اگر حقائق کا جائزہ لیا جاتا اور خبر تصدیق کے بعد شیئر کی جاتی تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی‘ مگر افسوس ایسا نہیں ہو ا۔ اولاً تو شرپسند ہی ایسی خبریں پھیلاتے ہیں مگر نادانستہ طور پر عوام بھی اس پروپیگنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب کسی نے جھوٹی خبروں کو دہشت گردی کیلئے پھیلایا یا اپنے سیاسی یا کاروباری حریف کو نقصان پہنچانے کیلئے یا پھر فسادات اور فرقہ واریت کیلئے‘ اور آپ اس خبر کو پھیلانے لگ گئے یا اس پروپیگنڈے سے مشتعل ہو گئے تو سمجھ لیں کہ شرپسندوں کا مقصد پورا ہو گیا اور آپ بھی اس میں حصہ دار ہیں۔ فلاں شخص نے فلاں واقعہ ہوتے دیکھا‘ فلاں دوست نے فلاں کو‘ فلاں کے بھائی نے فلاں کے چاچا کو یہ بتایا‘ کیا اس قسم کی باتیں وثوق کے ساتھ کی جا سکتی ہیں؟ جس خبر کا کوئی ذریعہ‘ کوئی معین وقت‘ کوئی چشم دید گواہ ہی نہ ہواس کے جھوٹ ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا؟ بس فلاں نے فلاں سے سن کر یہ بات آگے کر دی اور لوگوں میں اشتعال پھیلا دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سب میں مجرم کون ہے؟ وہ سب دانستہ مجرم ہیں جنہوں نے اس بات کو گھڑا اور مخصوص ایجنڈے کے ساتھ پھیلایا اور وہ سب نادانستہ مجرم ہیں جنہوں نے اس کو بنا تصدیق آگے شیئر کیا۔ وہ بھی دانستہ مجرم ہیں جنہوں نے اشتعال میں آ کر قانون ہاتھ میں لیا۔ احتجاج کرنے والے بچوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا اشتعال میں آنا اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا ایک مجرمانہ عمل ہے۔بچوں کا سکرین ٹائم زیادہ ہونا مضر صحت ہونے کے علاوہ سماج کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔اس طرح وہ افواہ سازی کی زد میں آ جاتے ہیں اور بغیر تصدیق بات آگے پھیلا دیتے ہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو‘ یقینا کان‘ آنکھ اور دل سب کی بازپرس ہو گی۔ اسی طرح سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (مفہوم)۔
آج کل ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہیں کہ کبھی انٹرنیٹ بند‘ کبھی سڑکیں بند‘ کبھی اپوزیشن سڑکوں پر تو کبھی عوام کا احتجاج‘ ایسے میں افواہیں زیادہ پھیلتی ہیں۔ کچھ لوگ اپنی سادہ لوحی کی بنیاد پر افواہوں کی زد میں آ جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے حالات کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ کلکس اور ویوز کی خاطر ایسی ایسی 'خبریں‘ بنائی جاتی ہیں جو وقوع پذیر ہی نہیں ہوتیں مگر من گھڑت کہانی بنا کر ان کو عوام میں بیچا جاتا اور پیسے کمائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی غلط بات پوسٹ ہو جائے تو بعد میں اپنے دیکھنے اور پڑھنے والوں کو اس سے آگاہ کیا جانا چاہیے کہ فلاں خبر غلط تھی‘ ہم اس پر معذرت خواہ ہیں مگر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آتا۔افواہ سازی کا مقابلہ ذہن سازی سے ہی کیا جا سکتا ہے اور ذہن سازی صرف اچھی تربیت‘ تعلیم اور محبت سے ہو سکتی ہے۔ بات کرنے سے‘ مذاکرات سے بڑے بڑے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔نوجوان نسل ہماری آبادی میں تین چوتھائی سے زائد ہے‘ اس لیے ان کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرنا ازحد ضروری ہے۔ ان کو پڑھائی اور کھیلوں سمیت مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنا ضروری ہے۔