تازہ اسپیشل فیچر

تاریخ کے ہولناک قحط

لاہور: (خاور نیازی) کسی بھی ملک یا خطے میں غذائی قلت، جس میں کسی بھی جاندار کیلئے خوردنی اشیاء ناپید ہو جائیں، اس کیفیت کو قحط سے تعبیر کیا جاتا ہے، ہر خطے میں اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں مثلاً وبائی امراض، خشک سالی یا کچھ دیگر ناگہانی آفات وغیرہ۔

قحط کی عمومی طور پر دو اقسام ہوتی ہیں، ایک قدرتی، جس میں قدرت کی طرف سے بروقت بارشوں کا نہ ہونا یا قدرتی آفات کے سبب اجناس کا ضائع ہو جانا، دوسری قسم مصنوعی قحط ہوتا ہے جو سرمایہ داروں کی طرف سے اشیائے خورونوش یا اجناس کی قیمتوں کو بڑھانے کیلئے پیدا کیا جاتا ہے۔

معروف امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے قحط بارے بہت خوبصورت الفاظ میں   دریا کو کوزے‘‘ میں بند کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب    دی گریٹ بک آف ہاریبل تھنگز‘‘ میں ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں، اس کتاب میں چوتھی بد ترین سفاکی، برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط کا تذکرہ ہے جس میں بقول میتھیو    دو کروڑ 66 لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں‘‘۔

آگے ایک جگہ میتھیو وائٹ لکھتے ہیں   امیر ترین لوگوں کو قحط سے فائدہ ہوتا ہے، قحط عالمی معیشت کی جڑ ہے، بھوکے لوگ زیادہ کام کرتے ہیں خاص طور پر وہاں جہاں ہاتھ سے کام ہوتا ہے، دنیا میں اگر بھوکے نہ ہوں تو کھیتوں میں ہل کون چلائے گا؟ ٹوائلٹ کون صاف کرے گا؟ ہم میں سے بہت سارے لوگوں کیلئے بھوک کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ دولت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

قحط کے سرمایہ دارانہ نظام سے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے میتھیو نے اپنی اسی کتاب میں ان الفاظ میں اظہار کیا ہے   سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک ہدف یہ بھی ہوتا تھا کہ قیمتوں کو بلند ترین سطح پر رکھنے کیلئے پیداوار کو تباہ کر دو، اسی وجہ سے اگست 1933 میں انگلستان اور سپین کے درمیان 15 لاکھ نارنگیاں بے دردی سے سمندر میں پھینک کر ضائع کر دی گئیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ ایک مرتبہ آئر لینڈ کی گائیوں کا بڑی مقدار میں دودھ جو گلاسکو پہنچ چکا تھا دریائے کلائیڈ میں بہا دیا گیا،یہ شرمناک واقعہ تو تاریخ کی کتابوں میں برسوں یاد رہے گا جب برازیل میں 1931ء سے 1936ء کے دوران کافی کے تقریباً 4 کروڑ بیگ جلا دیئے گئے، جو ایک اندازے کے مطابق کل دنیا کی کافی کی ڈیڑھ سال کی ضرورت کے برابر تھی‘‘، اب دنیا میں قحط کے پیش آئے چند بڑے واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

ہندوستان کا قحط
1630ء سے 1632ء کے دوران گجرات (ہندوستان) میں آنے والے ایک ہولناک قحط بارے معروف یورپی مورخ پیٹر منڈی کہتا ہے   گجرات کا قحط 1630ء میں خشک سالی سے شروع ہوا، اگلے سال فصلوں پر چوہوں اور ٹڈی دل کے حملے اور پھر بہت زیادہ غیر متوقع بارشیں، قحط اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے اموات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ایسا شروع ہوا جو 1631ء تک تیس لاکھ افراد کی جان لے چکا تھا، لوگوں نے دیوانہ وار کم متاثرہ علاقوں کا رخ کرنا شروع کر دیا نتیجتاً بہت سارے لوگ راستے میں ہی دم توڑتے گئے،یہاں تک کہ سڑکیں لاشوں سے بند ہوگئیں۔

مورخ کارنیلئس ویلیرڈ ، ہندوستان کے قحطوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے    ہندوستان میں دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ ملک کو قحط سے گزرنا پڑا، مغلیہ دور میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں 1770ء اور 1771ء میں قحط کے دوران لگان بڑھا کر 60 فیصد کر دیا گیا تھا، ہندوستان کے 1876ء کے قحط کے دوران بھی انگریز ہندوستان سے غلہ برآمد کرتے رہے، اس قحط میں 70 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔

1943ء کے بنگال کے قحط بارے یورپی مورخ وارن ہیسٹنگز کے بقول، اس قحط میں لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے تھے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھا، لوگ روٹی کی خاطر بچے بیچنے لگ گئے تھے۔

یوکرین کا قحط
یوکرین اپنے دور میں دولت سے مالا مال خطہ اور سوویت یونین کا سب سے زرخیز علاقہ ہوا کرتا تھا، دولت اور وسائل کے اعتبار سے یہ روس کے بعد سب سے وسائل رکھنے والا اور معاشی طور پر مستحکم خطہ تھا، 1928ء میں وہاں کے کسانوں نے اسٹالن کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کی تو اسٹالن نے 1932ء اور 1933ء کے دوران وہاں بدترین قحط پیدا کر دیا جسے تاریخ میں   ہالو ڈرمر ‘‘ (Holodomor )کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مورخین کے مطابق ان دو سالوں میں یوکرین میں قحط سے 70 لاکھ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

چین کا عظیم ترین قحط
چین میں گزشتہ صدی کے چھٹے عشرے کے دوران ملک میں مسلسل خشک سالی پر حکمرانوں کو احساس ہوا کہ اس کا سبب پرندے، کیڑے مکوڑے اور کچھ دیگر جانور ہیں، 1958ء میں چینی انقلابی رہنما موزے تنگ نے ملک میں ہنگامی بنیادوں پر پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے ساتھ چار سالہ ایک جنگ کا آغاز کیا، جس کا نام   چار حشرات خاتمہ مہم‘‘(Four Pests compaign)رکھا گیا۔

بنیادی طور پر اس مہم کا مقصد مچھروں، مکھیوں، چوہوں اورچڑیا کی پائی جانے والی عام نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا، رفتہ رفتہ یہ    چڑیا مار مہم‘‘ کے نام سے جانی جانے لگی، یہ مہم 1962ء تک جاری رہی، چینی حکام کا خیال تھا کہ کچھ حشرات الارض، بالخصوص چڑیاں، چاول، گندم اور دیگر فصلات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک قحط کی طرف تیزی سے جا رہا ہے۔

ماوزے تنگ کے اعلان کے بعد لوگوں نے اس مہم کے دوران ان جانداروں کا ہر جگہ تعاقب کیا، مورخین کے مطابق دنیا حیران تھی کہ چڑیا جیسے معصوم پرندے کی ہلاکت کا کیا جواز ہے؟ لوگوں نے چڑیا کا کسی خطرناک مجرم کی طرح تقریباً ہر جگہ تعاقب کیا یہاں تک کہ لوگوں نے چڑیا کے گھونسلے تباہ کر ڈالے، ان کے بچوں کو مار دیا، انڈے توڑ ڈالے اور جہاں بھی چڑیا یا اس کے بچے نظر آتے لوگ ٹین کے ڈبے بجا کر اسے ڈرا کر بھگا دیتے، رفتہ رفتہ چین میں چڑیا کی نسل تقریباً ختم ہوگئی۔

ماہرین ماحولیات کہتے ہیں، چین میں چڑیا کی نسل کے خاتمے کے ساتھ ہی حشرات الارض کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا کیونکہ حشرات الارض کو سب سے زیادہ کھانے والا پرندہ، یعنی چڑیا کا خاتمہ ہو چکا تھا اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والی حشرات بے قابو ہو چکی تھی جس کے باعث فصلوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچنا شروع ہوا، چاول کی فصل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی جبکہ دوسری فصلوں کا بھی یہی حال ہوتا چلا گیا جس سے ملک میں رفتہ رفتہ قحط نے پنجے گاڑھنا شروع کر دیئے۔

چینی حکام کو اپنی ناعاقبت اندیشی کا احساس ہوا تو اسے ملک بھر میں اعلان کرنا پڑا کہ فوری طور پر   چڑیا مار مہم‘‘ کو روک دیا جائے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، ایک طرف چڑیوں کی نسل کا خاتمہ ہوگیا تو دوسری طرف قحط نے دو کروڑ افراد کو موت کے منہ میں پہنچا دیا، اس   چڑیا مارمہم‘‘ کو چین کی بدترین آفات میں شمار کیا جاتا ہے، مورخین اسے عذاب الہٰی سے تعبیر کرتے ہیں۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔