تازہ اسپیشل فیچر

وقت کا بامقصد استعمال!

لاہور: (بینش جمیل) اگر آپ سے یہ معلوم کیا جائے کہ ایک سال کے کل آٹھ ہزار سات سو ساٹھ (8760) گھنٹوں کو آپ نے کہاں کہاں صَرف کیا ہے تو امکان ہے کہ اس میں تقریباً 70 فیصد وقت کا آپ حساب بتا دیں گے جیسے دفتر، کاروبار، نیند، آمدورفت وغیرہ۔ باقی گھنٹوں کے حساب کیلئے آپ کو ذہن پر زور دینا ہوگا۔

اگر آپ سے کہا جائے کہ اس سال کے کل گھنٹوں میں سے آپ نے کتنا وقت بامقصد استعمال کیا اور کتنا بے مقصد اور فضول و لغو باتوں میں، تو اس کا جواب یقینا مشکل ہے، اس کی وجہ پہلی تو یہ کہ ہم نے اپنا نصب العین اور متعلقہ مقاصد متعین نہیں کیے، دوسرے ان مقاصد کیلئے طریقہ کار اور راہیں متعین نہیں کیں۔

تیسرے یہ کہ ان کیلئے ہم نے عزم نہیں کیا، چوتھے یہ کہ باریک بینی سے منصوبہ بندی نہیں کی اور پانچویں یہ کہ اس سلسلے میں نہ تو ہم نے وقت مقرر کیا ہے، نہ اس وقت کا حساب لکھا اور نہ ہی اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ مقاصد کے حصول کیلئے ہم نے کتنا وقت استعمال کیا اور باقی کتنا ضائع ہوا۔

ہم اپنی زندگی بس اسی انداز سے 24 گھنٹہ یومیہ گزار رہے ہیں، ہم بے منزل کے مسافر ہیں کہ چلے جا رہے ہیں، جہاں کہیں تماشا نظر آیا تالیاں بجا دیتے ہیں، ہم گزرے ہوئے وقت کا احساس نہیں رکھتے نہ آئندہ کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور نہ ہی آج کیلئے عزم و ہمت اور لائحہ عمل یا ایکشن پلان پیش نظر رکھتے ہیں۔

ایسی صورت حال میں ہم انفرادی طور پر کوئی کام نہیں کر سکیں گے اور نہ اپنی ذات اور خاندان کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ ہی اجتماعی طور پر قوم و ملک کیلئے کوئی کارنامہ انجام دے سکیں گے، نتیجتاً ملکی معیشت اور قومی پیداوار میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکیں گے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے کہ وقت کہاں کہاں ضائع ہو رہا ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنی ذات کا جائزہ لینا ہوگا، دوسرے اپنی معیشت کے ذرائع کا جائزہ کہ حصول رزق کے سلسلے میں جو وقت ہم دے رہے ہیں اس میں کتنا وقت مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کا باعث ہے اور کتنا وقت محض شخصیات، سیاسیات اور معاملات کی خرابیوں کے باعث ضائع ہوتا ہے۔

تیسرے، ہم جائزہ لیں کہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں ہم حقیقتاً کتنا وقت دے رہے ہیں جن کا معاشرہ تقاضا کر رہا ہے یا اس معاملہ میں عدم توجہی کا شکار ہیں، چوتھے اس بات کا جائزہ لیں کہ واقعی ہم اپنے گھر میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو ہماری حیثیت یا ذمہ داریوں کے مطابق ہے یا پھر محض پیسے کمانے کی مشین ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے گھر کو سرائے بنا رکھا ہے اور صرف آرام کیلئے گھر پہنچتے ہیں، اس سلسلہ میں ہم اپنی خامیوں، عادتوں اور معاملات کا پتا لگائیں جو کہ عموماً تضیع اوقات کا باعث ہوتے ہیں۔

کیا ہم نے اپنے نصب العین کا تعین کر لیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں، پھر اس کے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد مقاصد متعین کر لئے ہیں؟ جیسے یہ کہ اس نصب العین کے حصول کیلئے آئندہ دو سال میں یہ اور اس کے بعد کے سالوں میں یہ کام کرنے ہیں۔

کیا ہم نے اپنی زندگی کیلئے ترجیحات کا تعین کر لیا ہے؟ نصب العین اور مقاصد کے تعین کے بعد اہم کام یہ ہے کہ ان کے حصول کیلئے جن ذرائع اور وسائل، معلومات اور لوازمات کی ضرورت ہے اس پر توجہ دیں اور بہتر منصوبہ بندی کریں، اس کیلئے یہ بھی جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کیا مصروفیات ہیں جو مقصد سے قریب پہنچانے میں دیگر مصروفیات سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں، اسے ہم ترجیحات کا تعین کہیں گے۔

ہم اپنی عادتوں کا جائزہ لیں، جن کے باعث وقت ضائع ہوتا ہے، جیسے صبح آنکھ کھولنے کے بعد خاصی دیر انگڑائیاں لیتے رہنا، فجر کی نماز کے بعد گھنٹہ دو گھنٹہ کیلئے نیند کا آ جانا، دوستوں کے ساتھ گھنٹوں خوش گپیوں میں مشغول رہنا وغیرہ۔

شخصیت کا غیر منظم ہونا بھی معاملات میں الجھاؤ اور فیصلوں میں تاخیر کا باعث ہوتا ہے، نتیجتاً اس غیر منظم شخصیت کے باعث ذاتی، اجتماعی اور قومی وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔

بینش جمیل پشاور کے ایک تعلیمی ادارے میں معلمہ ہیں اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔