لاہور ہائیکورٹ : سموگ پر قابو پانے کیلئے ہر ضلع میں ماحولیاتی انسپکٹر تعینات کرنیکا حکم
حکومت ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے میں ناکام ،عدالتی حکم پر روزانہ 1لاکھ 92ہزار گیلن پانی کی بچت جاری، جسٹس شاہد ، بھٹو ں کوزگ زیگ ٹیکنالوجی پر نہ لانے ،پلاسٹک بیگز استعمال کرنیوالے مالز کیخلاف کارروائی کیجائے ،فیصلہ
لاہور (محمد اشفاق سے )صاف پانی کو بچانے اور ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سموگ پرقابوپانے کے لئے ہرضلع میں ماحولیاتی انسپکٹرتعینات کیا جائے ۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ہارون فاروق اور ابوذر سلمان نیازی سمیت دیگر کی درخواست پر جاری فیصلے میں لکھاکہ نیشنل واٹر پالیسی پر عمل درآمد کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ،عدالت نے حکومت کو سموگ پر قابو پانے کے لیے ہر ضلع میں ماحولیاتی انسپکٹر تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے میں فیل ہوچکی ہے ، زگ زیگ پر اینٹوں کے بھٹہ کو منتقل نہ کرنے والوں کیخلاف، پنجاب میں پلاسٹک بیگز استعمال کرنے والے شاپنگ مالز سمیت دیگر ، پانی کو آلودہ کرنیوالی انڈسٹریز کے خلاف کارروائی اورنیشنل واٹر پالیسی پر من و عن عمل درآمد کیا جائے ۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارا آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے ، آئین ریاست کو عوام کو حقوق دینے کا پابند کرتا ہے ، ریاست کا فرض ہے کہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے ، آئین کا آرٹیکل 9شہریوں کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک زندگی فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے ، آرٹیکل 38شہریوں کو بنیادی ضروریات کھانا،تعلیم ،گھر،کپڑے اور میڈیکل سہولیات دینے کا پابند کرتا ہے ۔ جسٹس شاہد کریم نے فیصلے میں کہاکہ پاکستان کونسل آف ریسرچ آف واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق زیر زمین پانی میں بیکٹیریا،آرسینک آئرن پایا گیا ،ڈی جی واٹر مینجمنٹ کے مطابق پاکستان میں زیر زمین پانی کی مقدار 2025 تک رہ گئی ہے جس کے بعد صاف پانی کو محفوظ بنانے کے لیے جوڈیشل واٹر کمیشن تشکیل دیا گیا ۔جسٹس شاہد کریم نے چیئرمین جوڈیشل واٹر کمیشن جسٹس ریٹائرڈ علی اکبر قریشی کے اقدامات کو سراہتے ہوئے لکھا کہ عدالتی احکامات پر روزانہ ایک لاکھ 92ہزار گیلن صاف پانی بچایا جارہا ہے ، واٹر کمیشن نے 73واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوائے ، 400انڈسٹریل یونٹ کو پانی ضائع کرنے سے روکا، زمینی پانی گندا کرنے پر شوگر انڈسٹری کے خلاف بھی کارروائی کی۔ فیصلہ میں کہاکہ مختلف سوسائٹیز میں فریش پانی کو محفوظ بنانے کے لیے 192واٹر ٹینک لگائے گئے ، واٹر ٹینک روزانہ 60سے 70ہزار گیلن پانی محفوظ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ فیصلے کے مطابق ماضی قریب میں پاکستان نے زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا حصہ ہے ، نیشنل واٹر پالیسی کے نکات پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا، یہ بات حیران کن تھی کہ وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،نہری پانی کی کمی کے باعث زراعت کے لیے بھی پنجاب میں زیر زمین پانی استعمال کیا جا رہا ہے ۔جسٹس شاہد کریم نے بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں اور واٹر کمیشن سے رپورٹس کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا۔جسٹس شاہد کریم نے فیصلے میں ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے سے متعلق کہاکہ پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی کے تاریخی نتائج سامنے آئے ہیں، گزشتہ کئی برسوں میں پلاسٹک بیگز کے خاتمے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں ،پلاسٹک بیگز ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، پلاسٹک بیگز سمندری حیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، انہی وجوہات کی بنا پر عام عوام میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی۔ مزید کہاگیاکہ پلاسٹک بیگز بنانے والی فیکٹریوں کو بند کرنا کوئی حل نہیں تھا کیونکہ وہاں ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا ،پہلے قدم کے طور پر لاہور میں ریٹیل شاپس پر پلاسٹک بیگز کی پابندی عائد کی گئی، ایسی پالیسی بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے جو قدرتی ماحولیاتی نظام کے خطرات کو کم کرسکتے ہیں۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیاکہ پاکستان میں عدالتیں عوام کو ماحولیاتی انصاف کرنے کی پابند ہیں، عدالتی سپر ویژن اور عدالتی احکامات کے باعث دائر درخواستیں ختم نہیں ہوسکتیں ، یہ مفاد عامہ کا کام جو درخواستیں جاری رکھنے کا جواز ہے ، دائر درخواستوں میں بہت کچھ حاصل کرلیا گیا ہے ، اسے برقرار رکھنے اور مزید آگے بڑھنے کے لیے کام جاری رہے گا۔ عدالت نے کارروائی 9ستمبر تک ملتوی کردی۔