ریکوڈک منصوبہ کیا ہے ؟

ریکوڈک منصوبہ کیا ہے ؟

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے اوراس کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے ۔

ریکوڈک کے قریب ہی سینڈک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے ۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ‘شو کیس’ کہتے ہیں۔ ضلع چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہے جن پر آج تک مکمل انداز میں کام شروع نہیں ہو سکا ۔

پاکستان کی حکومت نے ان ذخائر کی تلاش کے لیے 28 برس قبل ریکوڈک منصوبے کا آغاز کیا لیکن اس سے ملک کو کسی فائدے کے بجائے نہ صرف چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا بلکہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے کے لیے ثالثی کے دو بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی پر خطیر اخراجات بھی ہوئے ہیں۔سنہ 2013 میں جب ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی ٹھیتھیان کاپر کمپنی کو مائننگ کا لائسنس نہیں دیا گیا تو کمپنی نے اس کے خلاف سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے والے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا۔محکمہ معدنیات حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سات سال کے دوران ان فورمز پر مقدمہ بازی پر مجموعی طور پانچ ارب 33 کروڑ 80 لاکھ آٹھ ہزار دو سو روپے کے اخراجات ہو چکے ہیں۔

بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان کے ایک مضمون کے مطابق حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے سنہ 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ بلوچستان ڈویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا۔چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کر کے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے ۔منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتھیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی) کو فروخت کیے ۔

نئی کمپنی نے علاقے میں ایکسپلوریشن کا کام جاری رکھا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائر معاشی حوالے سے سود مند ہیں۔ بعد میں کینیڈا اور چِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے ۔ ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا گیا۔اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کر دیا اور بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ کے لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا۔

اس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی۔حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بڑھانے کی بھی شرط رکھی گئی۔سینڈک پراجیکٹ سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ملنے کے باعث حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ شرائط بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے رکھی گئی تھیں۔کمپنی کی جانب سے ان شرائط کو ماننے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے اور محکمہ بلوچستان مائننگ رولز 2002 کی شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر 2011 میں ٹی سی سی کو مائننگ کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف ٹی سی سی نے سیکرٹری مائنز اینڈ منرلز حکومت بلوچستان کے پاس اپیل دائر کی تھی جسے سیکرٹری نے مسترد کیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں