آڈیولیکس کمیشن کیس،آج سماعت:چیف جسٹس سمیت 3جج بینچ سے الگ ہو جائیں:وفاقی حکومت

آڈیولیکس  کمیشن  کیس،آج  سماعت:چیف  جسٹس  سمیت 3جج  بینچ  سے  الگ ہو جائیں:وفاقی  حکومت

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر آج سماعت کر یگا جبکہ وفاقی حکومت نے متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے بینچ پر اعتراضات اٹھا دیئے اور استدعا کی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ سے الگ ہو جائیں اور یہ تین جج صاحبان یہ کیس نہ سنیں ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ آج بدھ کو آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کرے گا ،عمران خان کے علاوہ صدر سپریم کورٹ بار عابد شاہد زبیری،سیکرٹری مقتدر شاہ اور ریاض حنیف راہی نے بھی انکوائری کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے منگل کو سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل تین ججوں کا بینچ سے الگ ہونے اور کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دینے کی استدعا کر دی اور موقف اپنایا کہ مفادات کے ٹکرائو کے اصول کے تحت کوئی جج وہ کیس نہیں سن سکتا جس سے اس کا مفاد وابستہ ہو۔ درخواست میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سے بینچ سے الگ ہونے کی استدعا کرتے کہا گیا ہے کہ وہ یہ کیس نہ سنیں کیونکہ آڈیو لیکس کمیشن کے سامنے تحقیقات کے لیے رکھی گئیں آڈیوز میں بلواسطہ مذکورہ تین ججوں کا بھی ذکر ہے جبکہ ایک ویڈیو براہ راست چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلقہ ہے ۔ عدالتی فیصلوں اور ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنا یا رشتے دار کا مقدمہ نہیں سن سکتا ،درخواست میں استدعا کی گئی کہ مذکورہ تین جج بینچ سے الگ ہوجائیں اور نیا بینچ تشکیل دیا جائے ۔

اسلام آباد(نامہ نگار،اے پی پی ،مانیٹرنگ ڈیسک)قومی اسمبلی میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ سیاست دانوں نے ماضی میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں لیکن انصاف کی کرسی پر اس قسم کی دو نمبری نہیں دیکھی، آڈیو لیکس کمیشن، ایکٹ کے خلاف نوٹس لینے کی روایات قابل فخر نہیں قابل شرم ثابت ہوں گی۔ مفادات کے ٹکرائو کی صورت میں منصف کوانصاف کی کرسی پرنہیں بیٹھنا چاہئے ، عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتے مگر وہ ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی،اگر عدلیہ پارلیمنٹ کی حدود میں مداخلت کرے گی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پرخطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو قانون کے مطابق ہو تو اسے بھی مسترد کردیا جاتاہے ۔ مفادات کا ٹکرائو ایک اہم نکتہ ہے ، اگر ایسا معاملہ ہو تواصول ہے کہ منصف کو کرسی پرنہیں بیٹھنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کابینہ نے آڈیو لیکس پر ایک کمیشن بنایا جس میں سینئر ترین ججز رکھے مگر چیف جسٹس نے اسے کام کرنے سے روک دیا، ہم نے چیف جسٹس کو اس لیے اس میں شامل نہ کیا کیوں کہ آڈیوز میں خود چیف جسٹس کی خوش دامن شامل تھیں، امید تھی کہ چیف جسٹس اس کمیشن سے دور رہیں گے تاکہ انصاف ہوسکے ۔ چیف جسٹس کو آڈیو لیکس کمیشن پر قائم بینچ سے علیحدہ ہونا چاہیے ۔کیونکہ آڈیوٹیپس میں ان کی خوش دامن شامل تھیں ۔ انہوں نے کہا ایک تاثرپایا جاتاہے کہ آڈیو ٹیپس یا لیکس شائد فون کے ساتھ ڈیوائس لگا کے سنی جاتی ہیں، آپ برطانیہ میں بیٹھ کرپاکستان میں فون ہیک کرسکتے ہیں، اس وقت بین الاقوامی ہیکرز فعال ہیں۔انہوں نے کہا میری اطلاع ہے کہ ثاقب نثار کے بیٹے نے کمیٹی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی ہے یا تو وہ آڈیو ٹیپس سے انکارکردیں۔آج سے کچھ سال پہلے اس وقت کے چیف جسٹس کے بیٹے کا کیس تھا، اس وقت چیف جسٹس بینچ میں خودنہیں بیٹھے ، یہ روایات اب ترک کردی گئی ہیں، اگر اس وقت کے چیف جسٹس نے اپنے آپ کو علیحدہ کیا تھا تو موجودہ چیف جسٹس کو بھی اپنے آپ کوعلیحدہ کرنا چاہئے تھا۔وزیر دفاع نے کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا جس میں چیف جسٹس کے اختیارات کو وسعت دی گئی مگر اس کا بھی نوٹس لیاگیا، ہم چاہتے تھے کہ ایسا طریقہ کاروضع کیا جائے جس سے ون مین شو کا تاثرختم ہو، ہماری تجویز تھی کہ عدالت عظمیٰ میں اختیارات اور انصاف کی فراہمی میں شفافیت لائی جائے ۔ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان اورسپریم کورٹ کے درمیان اختلافات نہ ہوں، آئین کے تحت کوئی ادارہ دوسرے ادارے کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، آئین نے پارلیمان کی کوکھ سے جنم لیاہے ، ہمیں کہاجارہاہے کہ ہمیں ڈکٹیٹ نہ کیا جائے مگراس کا اطلاق سپریم کورٹ پربھی ہوتاہے ۔یہ پاکستان کے آئینی سیٹ اپ کیلئے خطرناک ہے ۔ انہوں نے کہا ثاقب نثار کا بیٹا الیکشن کے ٹکٹ کیلئے کروڑوں کا سودا کرتے ہوئے بے نقاب ہوا اور وہ الیکشن جو ہوئے ہی نہیں پتا نہیں پیسے واپس دئیے کہ نہیں، اسلام آباد میں جس شخص نے درخواست دی ہے وہ خود آڈیوٹیپ میں ملوث ہے ۔وزیر دفاع نے کہا اس ملک کی تاریخ میں ایسے ایسے چیف جسٹس گزرے ہیں کہ شاید ان کی نسلیں اپنی ولدیت بتاتے ہوئے شرماتی ہیں۔ماضی میں ہم سیاست دانوں نے بڑی بڑی غلطیاں کیں اپنے معاملات کے لیے اپنی مرضی کا بندہ کہیں بٹھادیں اس قسم کی دو نمبریاں تو کرسکتے ہیں مگر ایسی دو نمبری نہیں دیکھی کہ آپ انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے ہیں اور جس کیس میں آپ ملوث ہیں۔دریں اثناء ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے 9 مئی کے واقعات اور دفاعی تنصیبات پر حملوں کا ذمہ دار صدر مملکت عارف علوی کو قرار دے دیا۔انہوں نے کہا دفاعی تنصیبات پر حملے کی ابتدا عارف علوی نے کی ، سوشل میڈیا پر اخلاقیات کی تباہی بھی عارف علوی نے کی ہے ۔خواجہ آصف کا کہنا تھا اگر ملکی قانون نے ان سے حساب نہ لیا تو وہ اس جہاں میں نہ سہی اگلے جہاں میں حساب دیں گے ، میرا موقف تاریخ کے واقعات کی بنیاد پر ہے ۔وزیر دفاع کا کہنا تھا عمران خان کی گرفتاری میں فوج کا قطعاً کوئی کردار نہیں تھا، عمران خان کو فوج یا رینجرز نے گرفتار نہیں کیا، رینجرز نے گرفتاری میں پولیس کی مدد کی، عمران خان فوج پر غلط الزامات لگا رہے ہیں اور اب فوجی تنصیبات پر حملے کی توجیح پیش کر رہے ہیں، عمران خان لوگوں کو اکسانے اور منظم حملوں کے جواز کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے ابھی اتحادیوں سے مشاورت اور بحث شروع نہیں ہوئی، تحریک انصاف پرپابندی کی فوری ضرورت پڑی تو اتحادیوں سے مشورہ بھی کرلیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں