زہر پینے کی درخواست سستی شہرت کیلئے دائر کی گئی:ہائیکورٹ
لاہور(محمد اشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ نے زہرپینے کی اجازت مانگنے والے شہری کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا،سات صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس راحیل کامران شیخ نے قرار دیا کہ زہر پینے کی درخواست سستی شہرت کیلئے دائر کی گئی۔
درخواست گزار زہر پینے سے متعلق اجازت دینے کے قانون کے بارے میں بتانے سے قاصر رہا ،قوانین کے تحت زہر پینا جرم ہے لہذا عدالت جرم کی اجازت نہیں دے سکتی زہر کا استعمال کرکے انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے شخص کو 6ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے ،درخواست گزار کے مطابق زہر پینے سے وہ مرے گا نہیں بلکہ کینسر کے مریضوں کو بچا سکتا ہے ایسی اجازت دینا نہ صرف قانون کی خلاف وزری ہے بلکہ ادویات کی فیلڈ میں انارکی کا بھی خدشہ ہے ، پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 284 کے تحت اگر کوئی شخص زہر کا استعمال کرے یا انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالے تو اسے چھ ماہ تک قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے جبکہ سیکشن 336 اے کے تحت انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنا جرم ہے ، عدالت کسی ایسے کام کی اجازت نہیں دے سکتی جو خطرناک اور قانون کے خلاف ہو ، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین کے تحت کوئی فرد اپنی زندگی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ، بھارت سمیت کئی ممالک میں انتہائی بیمار اور تکلیف کے مریضوں کو اپنی جان ختم کرنے کے حوالے سے عدالتی تحفظ حاصل ہے ،وہاں انتہائی بیمار مریضوں کو انستھیزیا کے ذریعے عزت وتکریم سے جان دینے کا حق حاصل ہے ،جبکہ موجودہ کیس میں درخواست گزار بذات خود کینسر کا مریض نہیں ہے ، درخواست گزار نہ ہی انتہائی تکلیف میں مبتلا ہے جو اپنی زندگی ختم کرنا چاہتا ہے ،اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہے پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ اچھی تعداد میں غیر مسلم بھی مقیم ہیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ پاکستان میں انستھیزیا کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں ،عدالت کے سامنے آئین کے آرٹیکل 214 کا معاملہ نہیں ہے لہٰذا اس سوال میں جانا درست نہیں ہوگا کہ انستھیزیا سے موت کی اجازت دی جائے یا نہیں، بظاہر یہ درخواست مفاد عامہ کی نہیں بلکہ سستی شہرت کیلئے دائر کی گئی ہے ، درخواست مسترد کی جاتی ہے ۔