کراچی میں کیا کیا غیرقانونی ہورہا ہمیں سب پتہ: کیا چیئرمین ایف بی آر کا کام کرپٹ افسروں کا تحفظ کرنا رہ گیا؟ چیف جسٹس

کراچی میں کیا کیا غیرقانونی ہورہا ہمیں سب پتہ: کیا چیئرمین ایف بی آر کا کام کرپٹ افسروں کا تحفظ کرنا رہ گیا؟ چیف جسٹس

کراچی(سٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ نے کنٹینرز ٹریکنگ کے ٹھیکوں میں کرپشن پر ایف بی آر کے کرپٹ افسران کیخلاف کارروائی کے حکم پر نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر پر مشتمل لارجر بینچ میں کیس کی سماعت ہوئی۔ایف بی آر افسران کیخلاف کارروائی کے حکم پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے پر سپریم کورٹ برہم ہوگئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا چیئرمین ایف بی آر کا کام صرف کرپٹ افسران کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے ؟ ،سرکاری اداروں کا یہ کام ہے کہ کرپٹ افسران کو بچانے کی کوشش کریں؟۔ چیف جسٹس نے ایف بی آر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایف بی آر کے وکیل ہیں جو عوام کے پیسوں پر پل رہا ہے ، ایف بی آر تمام کرپٹ لوگوں کو پالنا چاہتا ہے ،چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرکے پوچھتے ہیں کیوں کرپٹ افسران کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کرپٹ افسران کیخلاف کارروائی کریں،یہاں تو ایف بی آر ان کو بچانے آگیاہے ، آپ کو کیا مسئلہ ہے ؟ کرپٹ افسران کیخلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے ؟ یہ غیر ضروری نظر ثانی درخواست دائر کی گئی جس پر حیرت ہے ۔ سپریم کورٹ نے عدالتی حکم نامے کی کاپی ایف بی آر بورڈ کے تمام ممبرز اور سیکریٹری خزانہ کو بھجوانے کی ہدایت کردی۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ ایسی درخواستیں دائر نہ کی جائیں جس سے عدالتی وقت کا ضیاع ہو۔ سپریم کورٹ نے ایف بی آر کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے چودھری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن کیخلاف درخواست پر ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ، کے ایم سی اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کو نوٹس جاری کردیئے ۔چیف جسٹس نے بلڈر کے وکیل سے استفسار کیا کہ پلاٹ کی کمرشلائزیشن فیس کس کو ادا کی ہے ۔

بلڈر کے وکیل نے موقف اپنایا کہ پلاٹ کی کمرشلائزیشن فیس ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو دی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کس کو پیسے کھلائے ہیں رسیدیں کہاں ہیں۔ بلڈر کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ سندھ ماسٹر پلان، کے ایم سی و دیگر کو پیسے دئیے ہیں مہلت دی جائے ، رسیدیں پیش کردیں گے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ادھر جانا نہیں چاہتے کہ بلڈر نے 22 منزلہ عمارت بنادی ہے ، رسیدیں نہیں ہیں،کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتہ ہے ، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ یا کسی کو بھی پیسے دئیے ہیں آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو رسیدیں دکھائیں۔ درخواست گزار کے وکیل عبید الرحمن ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ چودھری خلیق الزماں روڈ کمرشلائز نہیں ہوسکتا ہے ۔ عدالت نے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ، کے ایم سی اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین کو 25 اپریل کو مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پرچودھری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ درخواست گزار کو بلڈنگ کی کمرشلائزیشن کی مد میں کی گئی ادائیگی کا ریکارڈ پیش کرنے کی بھی ہدایت کردی گئی۔

دریں اثنا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین کی نیلامی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایڈوانس رقم واپس پکڑیں اور بھاگ جائیں کیونکہ بس ٹرمینل کی زمین کراچی کے عوام کی ملکیت ہے ۔سپریم کورٹ نے پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین کی نیلامی منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست مستردکردی۔ نظرثانی کی درخواست پرائیویٹ کنٹریکٹر نے دائرکی تھی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بس ٹرمینل کی زمین کراچی کے عوام کی ملکیت ہے اوراس رفاہی پلاٹ کو صرف عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں کی ملی بھگت سے ہیر پھیر ہو جاتا ہے ، سرکاری افسران تک آپ لوگوں کی جیب میں ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے درخواست گزارسے کہا کہ ایڈوانس رقم واپس پکڑیں اوربھاگ جائیں، حکومت کے پاس اختیار ہے وہ نیلامی کافیصلہ واپس لے سکتی ہے ، حکومت اپنے اختیارات لوگوں کے لیے استعمال کررہی ہے تو ٹھیک ہے ، اگر اپنی ذات کے لیے کر رہی ہوتی تو الگ بات تھی۔

درخواست گزار کے وکیل بیرسٹرصلاح الدین احمد نے مؤقف اپنایا کہ سندھ حکومت نے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن ختم کردی تھی ،پاپوش نگر میں 2 ہزار گز کا پلاٹ نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا، درخواست گزار نے سب سے زیادہ بولی دی اور پلاٹ کی 25 فیصد رقم جمع کرا دی۔عدالت نے پوچھا کہ پلاٹ ابھی کس کے پاس ہے ؟۔ وکیل درخواست گزارنے جواب دیا کہ پلاٹ درخواست گزار کے پاس ہے ، دکانیں بنائی گئی ہیں۔ لاافسر محکمہ ٹرانسپورٹ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت پاپوش نگر میں بڑا بس ٹرمینل بنانا چاہتی ہے ،بس ٹرمینل نہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرک بسیں سڑکوں پر کھڑی کرنی پڑ رہی ہیں۔ لا افسر نے بتایا کہ یہ زمین اورنج لائن، الیکٹرک بسوں اور دیگر کے لیے استعمال ہوگی۔ چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دس سال تک صرف 25 فیصد رقم ادا کرکے کہتے ہیں پلاٹ آپ کے حوالے کردیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں