اسرائیل کے خلاف احتجاج ، طلبہ کی تحریک یورپ تک پھیل گئی

اسرائیل کے خلاف احتجاج ، طلبہ کی تحریک یورپ تک پھیل گئی

(تجزیہ:سلمان غنی) فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف پھیلنے والی آگ اب امریکی یونیورسٹیوں سے نکل کر آسٹریلیا، فرانس اور دنیا بھر کے مختلف ممالک تک پھیل گئی اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات بلا رنگ ونسل اور مذہب کے انسانی بنیادوں پر اسرائیل کے ظلم و تشدد کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں ۔

 یونیورسٹیوں، ہوسٹلوں کی بندش کے باوجود طلبا و طالبات یونیورسٹیز کے قریبی علاقوں میں شفٹ ہو رہے ہیں اور اس امر کا خطرہ بھی پیدا ہو چکا ہے کہ کہیں یہ سلسلہ یونیورسٹیز سے شہروں میں نہ منتقل ہو جائے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں یہ رجحان کیونکر عام ہوا انسانی بنیادوں پر جاری یہ ردعمل تحریک میں کیوں تبدیل ہو رہا ہے ۔ پہلے پہل تو ان نوجوانوں کی جانب سے ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن بعد ازاں آگے چل کر اسرائیل کیلئے اسلحہ کی ترسیل کی براہ راست بندش کا مطالبہ زور پکڑ گیا اگرچہ اس مرتبہ فلسطینیوں کے قتل کے خلاف تحریک کے مراکز بھی امریکی یونیورسٹیاں ہیں اور ایک مختصر وقت میں اس نے 40امریکی یونیورسٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ تحریک اب امریکہ سے نکل کر یورپ اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں تک پھیل گئی ہے مگر اس کے مقابلہ میں ویتنام جنگ کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی تحریک مختلف تھی لیکن پھر بھی اس ردعمل کو ویتنام کے خلاف آنے والے ردعمل سے مختلف قرار نہیں دیا جا سکتا جہاں تک اس حوالہ سے امریکی انتظامیہ اور دیگر ممالک کے ردعمل کا سوال ہے تو وہ اسے اپنے سیاسی مستقبل کے حوالہ سے خطرناک سمجھتے ہوئے اس پر اثر انداز ہونے کیلئے کوشاں ہیں اور امریکی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کے پیچھے حماس کا مائنڈ سیٹ ہے جو خود امریکہ اور مغرب کے لئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے ۔ امریکی میڈیا تو یہاں تک کہتا نظر آ رہا ہے کہ یہ اس ردعمل کی ابتدا ہے اور اگر غزہ میں پیدا شدہ صورتحال کا مداوا نہ ہوا اور بمباری کا سلسلہ جاری رہا تو پھر یہ سلسلہ کنٹرول سے باہر بھی ہو سکتا ہے اور اس کے اثرات امریکی عوام پر بھی پڑیں گے اور اس تحریک کے نتیجہ میں آنے والے امریکی انتخابات میں بڑا اپ سیٹ ہو سکتا ہے اور امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں سامنے آنے والے اس ردعمل کے بعد یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو اس کے اثرات خود مشرق وسطیٰ پر بھی ظاہر ہو سکتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں