گندم سکینڈل تحقیقات شروع،کسانوں کی محنت ضائع نہیں ہونے دونگا:شہباز شریف

گندم سکینڈل تحقیقات شروع،کسانوں کی محنت ضائع نہیں ہونے دونگا:شہباز شریف

اسلام آباد،لاہور(خصوصی نیوز رپورٹر،سپیشل رپورٹر،سیاسی رپورٹر سے ،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات شروع کردی گئیں،انکوائری کمیٹی نے دو سیکرٹریز کے بیان ریکارڈ کر لئے ، وزیراعظم نے حتمی رپورٹ کل پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

 اور گندم کی خریداری پر پیش رفت اور بار دانے کے حصول میں کسانوں کو درپیش مشکلات کا نوٹس لیتے ہوئے افسروں کو گندم خریداری کی نگرانی کرنے کی ہدایت کردی، انہو ں نے کہا کسانوں کی محنت ضائع نہیں ہونے دوں گا۔ذرائع کے مطابق سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کی زیرِ صدارت چار رکنی کمیٹی کا گزشتہ روز ہونے والا اجلاس کئی گھنٹے تک جاری رہا جس میں نگران دور کے سیکرٹری فوڈ سکیورٹی محمد محمود اور حال ہی میں عہدہ سے فارغ کیے گئے سیکرٹری فوڈ محمد آصف نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا، کمیٹی آج اس سلسلے میں مزید بیانات ریکارڈ کرے گی جن میں بعض نگران وزرا بھی شامل ہوں گے ، کمیٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران وفاقی کابینہ ارکان کا گندم درآمد کے معاملے پر اہم کردار ہے ، نگران وفاقی کابینہ ارکان سے انکوائری کے بغیر رپورٹ نامکمل ہوگی۔ سربراہ کمیٹی وفاقی سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل نے وضاحت کی کہ سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو طلب کرنے کی خبروں میں صداقت نہیں ہے ،اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہا ہوں۔

وزیراعظم نے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کو کل پیر تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ، انہوں نے کہا دستیاب ریکارڈ اور دستاویزات سامنے رکھ کر سفارشات مرتب اور ذمہ داروں کا واضح تعین کریں۔ادھر گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، دستاویزات کے مطابق موجودحکومت میں بھی 98 ارب 51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کی گئی، حالانکہ اس وقت ایک لاکھ 13 ہزار 529 میٹرک ٹن گندم کا کیری فارورڈ سٹاک موجود تھا، حکومتی ذرائع کا کہنا ہے سابق سیکرٹری آصف محمود نے وزیراعظم کو حقائق سے لاعلم رکھا، اضافی گندم کی درآمد نگران حکومت کے فیصلے کے تحت موجودہ حکومت میں بھی جاری رکھی گئی، دستاویزات کے مطابق 27 ستمبر 2023 کو وزارت خزانہ نے نجی شعبہ کے ذریعے 5 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی،گندم کی درآمد کے وقت ڈالر کا ریٹ 305 روپے تھا،درآمدی گندم بندرگاہ پر 93 اعشاریہ 820 روپے فی کلو میں پڑی،گندم کی درآمد کی سمری سابق سیکرٹری فوڈ سکیورٹی محمد محمود نے گندم کے سٹرٹیجک ذخائر کو یقینی بنانے کیلئے وزیراعظم کو بھجوائی تھی،جس کی منظوری اس وقت کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 4 ستمبر 2023 کو باضابطہ منظوری دی،وہ اس وقت انچارج وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی بھی تھے ۔

دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ 2022-23کے دوران بھی ملک میں 16 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن گندم کیری فارورڈ کے طور پر موجود تھی،2023-24 میں پاک فوج کیلئے گندم کا کوٹہ 1 لاکھ 75 ہزار میٹرک ٹن، پاک فضائیہ کیلئے 10 ہزار 500 میٹرک ٹن، پاک بحریہ کیلئے 2 ہزار 500 میٹرک ٹن مختص ،خیبرپختونخوا کیلئے 14 لاکھ میٹرک ٹن، گلگت بلتستان کیلئے 2 لاکھ، آزاد کشمیر کیلئے 3 لاکھ ،یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے 4 لاکھ ٹن اور دیگر کیلئے 2 لاکھ 44 ہزار 810 میٹرک ٹن کوٹہ دیا گیا تھا، مجموعی طور پر مذکورہ اداروں اور صوبائی حکومتوں کیلئے 27 لاکھ 32 ہزار 810 میٹرک ٹن کا کوٹہ رکھا گیا تھا۔دریں اثنا وزیرِ اعظم نے لاہور میں گندم کی خریداری کے حوالے سے پیش رفت اور کسانوں کو بار دانے کے حصول میں مشکلات پر اعلیٰ سطح ہنگامی اجلاس کی صدارت کی اور استفسار کیا کہ گندم کی خریداری کیلئے کسانوں کو بار دانے کے حصول میں مشکلات کیونکر درپیش ہیں؟کسانوں کو انکی محنت کا معاوضہ بروقت پہنچائیں گے ، اللہ کے فضل و کرم سے رواں سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے ،کسانوں کی محنت کو کسی کی غفلت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دونگا، کسانوں کے معاشی تحفظ پر کسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں،وزیراعظم نے ہدایت کی کہ افسر گندم کی خریداری کی موقع پر جا کر خود نگرانی کریں،وفاقی حکومت پاسکو کے تحت 18لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کرنے جارہی ہے جس کا مقصد کسانوں کو بھرپور فائدہ پہنچانا ہے ،وزیرِ اعظم نے گندم کی خریداری کے حوالے سے کسانوں کی سہولت یقینی بنانے اور انکے تحفظات دور کرنے کیلئے وزارت قومی غذائی تحفظ کی کمیٹی قائم کردی جو چار روز میں کسانوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے اقدامات کرے گی۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے ایف بی آر کے قابل اور محنتی افسروں کے اعزاز میں دی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمسایہ ممالک ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں، ہم قرض لینے پر مجبور ہو چکے ہیں، ریونیو کولیکشن بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے ،قرضوں کی ادائیگی کا حجم ہم سب جانتے ہیں۔

پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اور ٹیکس کلیکشن بڑا چیلنج بن گیا ، جو محصولات چاہئیں وہ کرپشن اور فراڈ کی نذر ہو رہے ہیں،پاکستان کو آج مشکل چیلنجوں اور مشکل حالات کا سامنا ہے ، ایف بی آر افسران نے دن رات محنت کی، واجبات کی وصولیوں کا ہدف انتہائی کم ہے ، قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے ، محصولات بڑھا کر اپنے ریونیو میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ، خراب کارکردگی والوں کو اعلیٰ عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں،انصاف کا فیصلہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے ، رپورٹس اور ایف بی آر ان پٹ کے مطابق سیاہ اور سفید کو الگ کرینگے ، جز ا اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں، بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا، 2700 ارب روپے کے محصولات کی ریکوری کیلئے قانون بن چکا ہے ، ملک کے لیے فیصلہ کن گھڑی آ چکی ہے ، سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہو گا،پاکستان کو دنیا میں کھویا ہوا مقام دوبارہ دلوائیں گے ، ایسے افسروں کو موقع نہیں دینگے جنکی ناک کے نیچے کرپشن ہو رہی ہو، ٹربیونل ممبران میں اچھے لوگ ہیں تو انکو عزت دینگے ورنہ گھر بھیج دینگے ، ٹیکس 2 جی ڈی پی کا فرق پاکستان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ،750 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ہڑپ کیے جا چکے ہیں، ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے ،وزیراعظم شہباز شریف نے کہا آج میرے لیے بہت زیادہ خوشی کا موقع ہے ، فرض کی ادائیگی میں بہترین خدمات پر افسروں کو سلام کرتا ہوں، پوری قوم کو محنتی اور ایماندار افسروں پر فخر ہے ، ایف بی آر افسروں نے ملک کی ترقی میں بہت کام کیا، آج پاکستان مختلف چیلنجز کا سامنا کررہا ہے ، ، وزیراعظم شہباز شریف نے بہترین کارکردگی پر افسروں کو ایوارڈ پیش کیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں